Home » Current Affairs » آزاد کشمیر میں بجلی کا اصل مسئلہ
آزاد کشمیر میں بجلی کا اصل مسئلہ
آزاد کشمیر میں بجلی کا اصل مسئلہ

آزاد کشمیر میں بجلی کا اصل مسئلہ

آزاد کشمیر میں آج کل بجلی کی قیمتوں اور بلات پر کافی زیادہ لے دے اور لعن طعن ہو رہی ہے۔ عوام ہوش ربا محصولات کی وجہ سے بلبلا رہی ہے۔ جب کہ حکمران عیش و آرام کی زندگی پا کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

آپ سوچیں گے بجلی کے انراخ پر اتنی آہ و فغاں کیوں؟ پیسکو اور ڈیسکو کے نرخ اتنے زیادہ تو نہیں ہیں، جن پر واویلا کیا جائے۔ تو جناب #اس_کے_پیچھے_بھی_ایک_کہانی_ہے۔

جاگراں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداوار پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ پر خرید رہی ہے۔ وہ اسے آزاد کشمیر کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنی یعنی ڈیسکو کو نیپرا کے مقرر کردہ انراخ کے مطابق فروخت کر رہی ہے۔ دوسری جانب آزاد کشمیر جو بجلی اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئسیکو) سے خرید رہا ہے، وہ بھی 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ ہے۔

۔

اب ہم یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟

دیکھیں، مسلسل ایک گھنٹہ 1000 واٹ استعمال کیے جائیں تو یہ ایک یونٹ گنا جائے گا۔ مثلاً استری، ہیٹر یا گیزر ایک گھنٹہ متواتر چلیں تو میٹر پر ایک یونٹ گرے گا۔ ایک میگاواٹ بجلی روزانہ استعمال ہو تو یہ 24000 یونٹ بنیں گے۔ اگر کوئی پراجیکٹ روزانہ 10 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے، وہ 2 لاکھ 40 ہزار یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔

اس طرح 100 میگاواٹ روزانہ بجلی کرنے والا پراجیکٹ 24 لاکھ یونٹس بجلی پیدا کرتا ہے۔

اور 1000 میگاواٹ روزانہ بجلی پیدا کرنے والے پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت 2 کروڑ 40 لاکھ یونٹ ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس منطق کے تحت کوئی منصوبہ اس سطح تک پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ پورا سال ہر دن اتنی ہی بجلی پیدا کرے۔

۔

محکمہ برقیات آزاد کشمیر نیپرا کے نرخ لاگو کر رہا ہے۔ یہ انراخ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں یکساں ہیں۔

پھر مسئلہ کہاں ہے؟

گلگت بلتستان کے بلات دیکھیے، سب بغیر محصولات کے ہیں۔ وہاں ابتدائی 100 یونٹ کا بل 3 روپے فی یونٹ ہے۔ اس کے بعد کے 100 یونٹ 4 روپے۔۔۔ اور اگلے 100 یونٹ پر 5 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ تو صاف ہے۔

اس کی مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے۔

مثال کے طور پر 203 یونٹ پر 715 روپے اس ترتیب سے وصول کیے جاتے ہیں۔

ابتدائی 100 یونٹ کے 300 روپے، بہ حساب 3 روپے فی یونٹ۔

اگلے 100 یونٹ کے 400 روپے، بہ حساب 4 روپے فی یونٹ۔

آخری 3 یونٹ کے 15 روپے، بہ حساب 5 روپے فی یونٹ۔

تاہم آزاد کشمیر میں الٹا حساب چل رہا ہے۔

کہیں 15 روپے فی یونٹ ہے، کہیں 25 روپے ہے۔۔۔ کہیں 40 روپے ہے اور کہیں 60 روپے۔ مزید برآں اگر 6 ماہ میں آپ 200 یونٹ عبور کر لیں گے تو بل دگنا ہو جائے گا۔

۔

مظفرآباد اس وقت جاگراں میں 32 میگاواٹ بجلی روزانہ پیدا کر رہا ہے۔ لیکن یہ بجلی نوسیری گرڈ میں جا رہی ہے جو پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا گرڈ ہے۔ یہ بجلی آزاد کشمیر خریدتا ہے۔ یعنی ہم اپنی بجلی پیدا کر کے وہی بجلی منہ مانگے داموں خرید رہے ہیں۔

منگلہ اور نیلم جہلم سمیت دیگر کئی چھوٹے بڑے منصوبوں کا ذکر ہی کیا۔۔۔ نیلم جہلم بہتے پانی پر ڈیم کا منصوبہ تھا لیکن ملی بھگت سے دریائے نیلم ہی ختم کر دیا گیا۔ اب یہی حشر کوہالہ بجلی منصوبے میں دریائے جہلم کا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اپنے دریاؤں کی قربانی دے کر بھی خسارے میں ہیں۔ دریاؤں کا رخ بدلنے کی وجہ سے آبی حیات اور موسمیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ اس پر مستزاد گرمی اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب الگ سے مسلط ہے۔ مظفرآباد کا ماحول معتدل رکھنے کے لیے پانچ جھیلیں بنانے کا منصوبہ تھا۔ اس کے لیے 5 ارب ملے تھے۔ وہ رقم کھوہ کھاتے چلی گئی۔ ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ رہی سہی کسر ظالمانہ محصولات نے نکال دی ہے۔ الٹا ہم پر احسان ہے کہ بجلی پاکستان سے آتی ہے۔

بندہ پوچھے پاکستان میں بجلی کہاں سے جاتی ہے؟

اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ پہلے سے بحرانوں میں گھرے ملک میں ایک نئی شورش برپا ہو جائے۔ یہی وقت ہے کہ مسائل کا بروقت تدارک کیا جائے۔ ورنہ یہ کنکریاں بڑھتے بڑھتے پہاڑ بن جائیں گی اور حالات گھمبیر ہوتے جائیں گے۔ ہم ابتدائی سطح پر مسائل حل نہیں کر سکتے، بعد میں تو سوچیں بھی نہ۔

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *