Home » Book & Literature Review » بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنٰی رانا

بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنٰی رانا

بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنیٰ رانا

تبصرہ

بیتی رُتوں کے نقشِ پا

لبنٰی رانا کا ناول

Follow
User Rating: 3.98 ( 5 votes)

بیتی رُتوں کے نقشِ پا از لبنٰی رانا

تجزیہ از فہمیدہ فرید خان

چند روز قبل سحر ساجد دو عدد ناول ڈھونڈتی پائی گئیں۔ ان میں سے ایک کی تلاش مکمل ہوئی تو انہوں نے ہمیں بھی اطلاع بہم پہنچائی۔ مابدولت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ٹھانی۔ ویسے بھی کوئی کام کرنے کا من نہیں تھا۔ گوگل چاچا سے ملتمس ہوئے کہ ہمیں بیتی رُتوں کے نقشِ پا کا دیدار کروایا جائے۔ انہوں نے فوراً دستِ شفقت بڑھایا، ”دیدار کے بجائے پورا ناول ہی لے لو بیٹا۔“ جاننے والے ہماری برق رفتاری (صرف پڑھنے کی حد تک) کا عالم جانتے ہیں۔ شپاشپ چار اقساط پڑھ کر ناول کا بیڑہ پار کیا۔

بیتی رتوں کے نقشِ پا پر تبصرہ لکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن ابھی ابھی سحر ساجد کی پوسٹ پر سوال دیکھا کہ کیسا ناول ہے؟ سوچا تجزیاتی موشگافی ضبطِ تحریر میں لانا لازم ہے۔ دھوم تانا نانانہ

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے کبھی لبنٰی رانا کو پڑھا ہو۔ میں نے ان کا پہلا مکمل ناول بیتی رُتوں کے نقشِ پا ہی پڑھا ہے۔ اس ناول کی سب سے اچھی بات دوراہوں کو خوبصورتی سے جوڑنا تھی۔ ایک حصّہ جن الفاظ پر ختم ہوتا، اگلا حصّہ بعینہٖ انہی لفظوں سے شروع ہوتا تھا۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

اس نے دائیں جانب دیکھا ایک دلفریب آس کے ساتھ، ایک موہوم سی امید کے سہارے، ایک معجزے کی توقع سے مگر کچھ نہیں ہوا۔ اسے اپنے حواس بے جان ہوتے محسوس ہوئے۔

مجھے اپنے حواس بے جان ہوتے محسوس ہوئے۔ بالکل اچانک اور غیر متوقع طور پر میرے سامنے وہ شخص موجود تھا جس سے تھوڑی دیر پہلے ہوئی مڈبھیڑ غالباً اتنی خوشگوار نہیں تھی۔

بیتی رُتوں کے نقشِ پا میں اصل معاملہ آخر میں کھلتا ہے۔ زیرک قاری جان لے تو الگ بات وگرنہ پہچاننا مشکل تھا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

کہانی میں نہیں کھولوں گی تاہم بیتی رُتوں کے نقشِ پا کا تھوڑا تعارف دے دیتی ہوں۔ ایک حصّے میں خاندان کے سربراہ کا نام لیے بغیر کہانی چلی اور کیا خوب چلی۔ موحد ہی نمیر والا آئیڈیا غالباً یہیں سے لیا گیا تھا۔ مگر یہاں میں اش اش کر اٹھی جب آخر میں، جی ہاں واقعی آخر میں پتہ چلا کہ پاپا کون تھے۔ بلکہ مما بھی کون تھیں۔۔۔ بھئی پاپا کی بیگم مما تھیں نا۔ ان کے بچے تھے قرۃ العین، ارتضیٰ اور مومو۔ ایک عدد پھپھو اور ان کا بیٹا معیز جو قرۃ العین کو پسند کرتا تھا۔ ہاں فارینہ بھی تھی جو معیز کو پسند کرتی تھی۔ قرۃ العین کا باس زیاد آفاق اسے پسند کرتا تھا۔ جب کہ دفتر میں ردا باس پر لٹو تھی۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

بیتی رُتوں کے نقشِ پا کے دوسرے حصّے میں تھے بختاور، اس کی دوست نادیہ اور سارہ۔ بختاور کی دادو، امی اور ابو۔۔۔ نادیہ کا بھائی ثاقب، جس کی بختاور سے منگنی ہو چکی تھی۔ پھر سلجوق عمر تھا جس سے فلرٹ کرنے کی نادیہ نے کلاس فیلو مائرہ سے شرط لگائی تھی۔ اسے بچانے کے لیے بختاور نے یہ بلا اپنے سر لے لی۔ لیکن سلجوق عمر سچ مچ اس کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

آپ پوچھیں گے ان دونوں حصوں کا آپس میں کیا تعلق تھا؟؟ اس بات پر بھی دھوم تانا نانانہ

بختاور کی شادی ثاقب سے ہوئی یا سلجوق عمر سے؟؟ دھوم تانا نانانہ

قرۃ العین کس کا نصیب بنی؟؟ دھوم تانا نانانہ

پاپا کون تھے؟؟ دھوم تانا نانانہ

مما کون تھیں؟؟ دھوم تانا نانانہ

مجھے انجام پسند نہیں آیا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

اور ہاں ایک بات مابدولت کو کھٹک رہی تھی یعنی ایک کردار ناول کے بیچ میں سے ایسے غائب ہوا جیسے، جی وہی سینگوں والی بات۔ شاید اسے وقتی طور پر صرف معاملات بگاڑنے کے لیے لایا گیا تھا۔ مگر کہانی کھلنے کے ڈر سے میں نہیں بتا رہی کہ وہ کون تھا۔۔۔ اس پر بھی دھوم تانا نانانہ

بیتی رُتوں کے نقشِ پا کی کہانی اچھی ہے۔ آپ اسے پڑھ کر ناخوش نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں کو لگ رہا ہے رومانوی مثلث زیادہ ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ کہانی کے یہی کردار شروع سے آخر تک چلے، مزید کوئی کردار بھرتی نہیں ہوا۔ اس ناول میں دو یی ٹریک تھے بس، یعنی دھوم تانا نانانہ

فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ کھلی آنکھ کا خواب

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *