راحت مسرت اور شیریں از فائزہ افتخار
تبصرہ از فہمیدہ فرید خان
۰۱/۰۷/۲۰۲۱
کئی گروپوں میں کافی مرتبہ ”راحت مسرت اور شیریں“ زیرِ بحث رہا مگر مجھے اس کی کہانی یاد نہ آئی۔ شہر زاد نے بھی پوسٹ لگا دی تو سوچا پڑھ ہی لوں۔ اپنی اسائنمنٹ اور پروف ریڈنگ کو کھڈے لائن لگا کر مابدولت نے موبائل آنکھوں سے جوڑ لیا۔
جب ”راحت مسرت اور شیریں“ کا ذکر ہوا تو ساتھ یہ ضرور کہا گیا کہ پڑھ کر بہت ہنسی آئی۔ لیکن مجھے ذرا بھی ہنسی نہیں آئی۔ کنیز فاطمہ کے بیانیے میں جھلکتا دکھ پوری شدت سے محسوس ہوتا رہا۔ اس ناولٹ میں ایک تلخ حقیقت آشکار کی گئی جسے پڑھ کر مزے کے بجائے دکھ ہوا۔ کنیز فاطمہ پہلے سسرال والوں کی چاکری کر رہی تھیں، پھر بہوؤں کے ماتھے کے بل گننا پڑے۔۔۔ صد افسوس۔۔۔
~
کنیز فاطمہ کون تھیں اور انہیں کیا دکھ تھا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیے راحت مسرت اور شیریں جس کے چیدہ چیدہ نکات پیشِ خدمت ہیں۔
کنیز فاطمہ ہر فرد کی شخصیت کو ناموں کے تناظر میں پرکھتی تھیں۔ اس چیز سے تصورات کا محل کھڑا ہو جاتا جو اکثر پے در پے جھٹکوں سے زمیں بوس ہو جاتا۔ یہی ”راحت مسرت اور شیریں“ کا مرکزی خیال تھا۔
کنیز فاطمہ پر ان کے نام کا اثر تھا۔ ان کی ساس افسر سلطانہ کی شخصیت بھی نام کے زیرِ اثر تھی۔ حتٰی کہ ان کے سسر مسکین اور میاں متین پر بھی اسم با مسمی تھے۔ ”راحت مسرت اور شیریں“ میں اولاد کی باری آئی تو ناموں کی اثر پذیری پر ان کا اعتقاد پختہ ہوتا چلا گیا۔ اکلوتی بیٹی شہزادی خوش بخت واقعی خوش نصیب ثابت ہوئی۔ مطیع اللہ سچ مچ اس کا مطیع ہو گیا تھا۔ کنیز فاطمہ نے بیٹوں کے نام بھی چن کر رکھے تھے فیاض، عادل اور فیضان تاکہ ان پر بھی ناموں کا اثر آئے۔ اثر آیا بھی، لیکن فیاض صرف اپنی بیوی کے حق میں فیاض ثابت ہو سکا۔ عادل نے البتہ اپنے نام کی لاج رکھی۔ اس یقین میں ان کی بہوؤں کے ہاتھوں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں۔
راحت اذیت سے بھری تھی اور مسرت رنج و الم پوٹلی نکلی۔ کنیز فاطمہ کے اندازے دونوں بہوؤں کے انتخاب میں غلط ثابت ہوئے۔ تیسری مرتبہ فیضان نے شیریں کو منتخب کر زحمت سے بچا لیا۔ ”راحت مسرت اور شیریں“ میں فائزہ افتخار نے صرف دو بہوؤں کے خصائل پر روشنی ڈالی۔ انہیں شیریں پر بھی لکھنا چاہیئے تھا، آیا وہ اسم با مسمی نکلی یا کڑوی کسیلی۔
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ آمرزش