سارانش
جب آپ کے پاس پیسہ نہ ہو، سیٹ نہ ہو، بڑی اسٹار کاسٹ نہ ہو، ایک اسٹرگلنگ ڈائریکٹر ہو۔۔۔ پھر بھی فلم بن جائے اور کلٹ بن جائے۔۔۔ ریلیز کے چالیس سال بعد بھی یادگار رہ جائے تو اسے “سارانش” کہتے ہیں۔
مہیش بھٹ کی کلٹ سارانش اپنی شاندار کہانی کے باوجود بہت سے مسائل کا شکار رہی۔ لیکن جب بن کر سامنے آئی تو دنیا نے جانا حقیقی فلم کسے کہتے ہیں۔ سارانش ایک غیر روایتی اور آرٹ فلم تھی۔ اسی کی دہائی بالی وڈ میں ہمیشہ اہم رہے گی۔ یہ وہ دور تھا جب عوام آہستہ آہستہ روایتی فلموں سے تنگ آ رہی تھی۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹل کا زمانہ شروع ہو کر عروج کی جانب گامزن تھا۔ اس زمانے میں مہیش بھٹ نے سارانش بنانے کی ٹھانی۔ بھٹ صاحب اس زمانے میں بہت برے حالات سے گزر رہے تھے۔ اپنے اصولوں اور اپنے اندر موجود انا کی وجہ سے ہر پروڈیوسر کی طرف سے حقارت برداشت کر رہے تھے۔ لیکن بھٹ صاحب تو بھٹ صاحب تھے۔
سارانش کی کہانی ان کے استاد اور مینٹور یوجی کرشنا مورتی کی زندگی کا ایک اہم چیپٹر ہے۔ یہ بھٹ صاحب کی خاصیت ہے کہ انہوں نے یا تو چربہ فلمیں بنائیں یا پھر حقیقی زندگی پہ مبنی۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کی کلٹ کلاسک “ارتھ”, سماج سے لڑتی “جنم” اور “زخم”، میوزیکل ہٹ “عاشقی” اور کنگنا رناوت کو جلا بخشنے والی “لمحے” دراصل بھٹ صاحب کی ذاتی زندگی کے مختلف چیپٹرز ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
ہمیشہ کی طرح فلم کی کہانی زیادہ نہ بیان کرتے ہوئے صرف اتنا بتاؤں گا کہ سارانش کی کہانی ایک بوڑھے جوڑے کی کہانی ہے۔ ان کا جواں سال بیٹا نیویارک میں قتل ہو گیا ہے۔ باقی پوری فلم اس صدمے سے نکلنے اور زندگی جینے کا بہانہ تلاش کرنے اور ایک اندھے وشواس کے گرد گھومتی ہے۔
سارانش وہ فلم تھی جس نے مہیش بھٹ کو عزت بخشی۔ انہیں ایک فلم میکر ہونے کی سند بخشی۔ اس فلم نے ایک ناکام، غصیلے، شرابی اور انا پرست ڈائریکٹر کو ایک دم سے بھارت کے صف اول کے ڈائریکٹرز میں لا کر کھڑا کر دیا۔ لوگ یہ ماننے پہ مجبور ہوئے کہ مہیش بھٹ ایک یادگار فلم بنا سکتے ہیں۔ بھٹ صاحب کے چالیس سالہ کیرئیر کی یہ سب سے بہترین فلم ہے۔
اس فلم کی کاسٹ میں بھٹ صاحب نے این ایس ڈی سے فارغ التحصیل انوپم کھیر کو مین لیڈ کے لیے کاسٹ کیا۔ انوپم کھیر نے بہت تفصیل سے اس فلم کے لیے تیاری کی۔ لیکن عین وقت پر پروڈیوسر نے فلم کی کہانی کی وجہ سے “سنجیو کمار” کو کاسٹ کرنے پہ زور دیا۔ کیونکہ فلم کے مین لیڈ کا کردار ایک بزرگ کا تھا اس وجہ سے پروڈیوسر ایک تجربہ کار اداکار کو لینا چاہتے تھے۔
لیکن ایک بار پھر مہیش بھٹ کی انا آڑھے آ گئی اور بالآخر انوپم کھیر ہی اس فلم کے مین لیڈ میں دکھائی دیئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انوپم کھیر اس وقت صرف ستائیس سال کے تھے لیکن انہوں نے نہایت عمدگی سے ایک ساٹھ سالہ انسان کا کردار ادا کیا۔ ہر بڑا ایوارڈ جیتے، یہی سارانش کا بڑھاپا ساری زندگی ان کی شان بنا۔ فلم کا دوسرا مین کردار بافٹا ایوارڈ ونر روہنی ہتانگڑے نے ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ سونی رازدان اس فلم میں بہت ہی خوبصورت لگیں (عالیہ بھٹ کی والدہ)۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا اگر آپ حقیقت سے قریب تر فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں تو سارانش لازمی دیکھیں۔ سارانش، جو بھارت کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔
تبصرہ نگار: سفیان مقصود