Home » Book & Literature Review » شاہکار از رفعت سراج | تبصرہ

شاہکار از رفعت سراج | تبصرہ

شاہکار | رفعت سراج

تبصرہ

شاہکار - رفعت سراج

طارق احمد فاروقی اور دریہ کی کہانی

Follow
User Rating: 4.1 ( 4 votes)

ناول: شاہکار

مصنفہ: رفعت سراج

تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان

ہمارے گروپ میں غالباً پرسوں پوسٹ لگی تھی کہ شاہکار ناول بہت اچھا ہے مگر اس پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔ میرے دماغ کی بتی جلنے بجھنے لگی۔ آج کل جس طرح کے حالات چل رہے ہم اچھی تحریروں کے متلاشی رہتے ہیں۔ مجھے یاد تھا یہ ناول میں پڑھ چکی ہوں کیوں کہ فراغت کا ایک دور ایسا بھی گزرا کہ مابدولت نے ہر قلم کار کی تخلیقات چن چن کر پڑھیں۔ تاہم کہانی ذہن سے یوں محو تھی۔ جب میرے دماغ میں کوئی بات اٹک جائے تو اس کا تدارک کرنا پڑتا ہے ورنہ اس الجھن میں دوسرا کوئی کام نہیں ہو پاتا۔ سو یہ ناول کھول کر پڑھنے پر کمر بستہ ہو گئی۔

_

شاہکار کی کہانی کا آغاز کم گو سے فائق احمد فاروقی کے گھرانے سے ہوا۔ ان کے پانچ بیٹے ہیں۔ جن پر انہوں نے اپنی بیوی عابدہ کے ساتھ ان تھک توجہ دی جس کے نتیجے میں پانچوں لڑکے لائق فائق نکلے۔ کہانی میں پہلا موڑ تب آیا جب لڑکوں کی ماموں زاد لڑکیاں پہلی بار ان کے گھر آئیں۔ وہ اتنے برسوں بعد پہلی مرتبہ پھوپھی کے گھر کیوں آئیں؟ کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

شاہکار کا ہیرو یعنی طارق احمد فاروقی بذلہ سنج اور حاضر جواب نوجوان کے طور پر ہر دل عزیز ہے۔ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی فاروق ہوائی اڈے جاتے ہیں۔ وہ راستہ بھٹک کر غیر ملکی ٹرمینل پر پہنچ جاتے ہیں اور ایک لڑکی سے عزت افزائی کروا کے گھر جاتے ہیں۔ تینوں لڑکیاں خود ہی گھر پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ طارق ان سے نہیں ملتا۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

دریہ کا پہلا تاثر ایک خود پسند، مغرور اور نک چڑھی لڑکی کا تھا۔ اسے طارق کی ثوبیہ کی طرف اٹھنے والی نگاہوں کا بخوبی ادراک تھا۔ اس کے باوجود اس نے طارق کے جذبات کا پاس کیا نہ اپنی بہن کے دل کا سوچا۔ شاہکار میں اس کی بطورِ مہمان طارق کے ساتھ کیسی نبھی؟ کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

_

طارق اکڑو، بانگڑو، مغرور اور اونچی ناک والا تھا۔ اس کی انا اور خود داری کو نور جہاں بیگم اور دریہ نے چار چوٹ کی مار دی۔ گو اس کا ردِ عمل اپنی جگہ درست تھا۔ دریہ کی باتوں پر مجھے بھی رہ رہ کر تپ چڑھتی تھی۔ عابدہ نے اپنے بیٹے کی ایک نہ سنی۔ انہوں نے نور جہاں (بھابھی) اور دریہ کی کہانی پر یقین کیا۔ سچی بات مجھے بے چارے طارق پر بڑا ترس آیا تھا۔ فاروق اور حسیب کی نوک جھونک نے لطف دیا۔ جب کہ فوزیہ کی گھوڑوں میں دلچسپی نے بہت ہنسایا۔ پھپھو کا کردار مختصر لیکن اچھا تھا۔ شاہکار میں مزاح بھی تھا۔ کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

شاہکار میں دوسرا ٹریک ولایت علی شاہ اور ان کی بیوی روشن کا تھا۔ ولایت علی شاہ امیر کبیر شخص اور دو بچوں کے باپ تھے۔ روشن نے ان سے دولت کی خاطر شادی کی تھی۔ بہ ظاہر اس کا سلوک بچوں سے اچھا تھا لیکن در پردہ وہ ان سے خار کھاتی تھی۔ شاہ صاحب کے سعودیہ جانے کے بعد اس نے چھوٹے بیٹے بشر کو ویرانے میں چھوڑ دیا تھا اور وہ ایک روحانی شخصیت میاں صاحب کو مل گیا۔ بڑے بیٹے عمر کو بھائی کے بارے میں استفسار پر کمرے میں بند کر دیا۔ وہ موقع پاتے ہی گڑیا (روشن کی بیٹی) کو لے کر گھر سے فرار ہو گیا۔ میاں صاحب کی فلسفیانہ باتوں اور گہرے خیالات نے اس ناول کو چار چاند لگائے۔ عائشہ یعنی ولایت علی شاہ کی بہن بھی اچھی تھیں۔ یہ ٹریک مزے کا تھا۔ کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

_

شاہکار کا تیسرا ٹریک ایک بڑھیا اور دو لڑکیوں یعنی ستارہ اور فیروزہ پر مشتمل تھا۔ ان کا تعلق ”اس بازار“ سے تھا۔ عمر گڑیا کے ساتھ ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہوں نے ایک منصوبے پر مرحلہ وار عمل درآمد کرنا شروع کر دیا۔ فیروزہ طارق کو پسند کرتی تھی۔ طارق نے اس سے نکاح بھی کر لیا تھا۔ آگے کیا ہوا؟ کیا یہ مجھے بتانا پڑے گا؟

سب کرداروں کا آگے چل کر ایک دوسرے سے منسلک ہو جانا بھی ایک شاہکار تھا۔ میں یہ ضرور بتانا چاہوں گی کہ آخر تک طارق کے گھر والوں کو پتہ نہیں چلا طارق دریہ میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ انہیں یہ تک معلوم نہ ہو سکا اصل سازش کس کی تھی۔ دریہ کی یا نورجہاں بیگم کی۔

شاہکار ناول کی بھی ایک عجب کہانی تھی۔ دریہ اردو، پنجابی اور انگریزی یکساں مہارت سے بولتی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ ہر فن مولا تھی۔ مطلب اپر کلاس کی نمائندہ ہو کے بھی اس نے فوراً بٹن ڈھونڈ کر لگا دیا۔ کسی کے سکھائے بغیر باقی سارے کام بھی آتے تھے۔۔۔ کیسے؟ کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے؟

بتاریخ: ۴/۰۶/۲۰۲۰

فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ دور کے درختوں تک

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *