شدید ہنگامی نگارشات
حصہ دوم
ہم بالآخر یک نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔ گوادر کے نیلگوں پانیوں میں آگ لگانے کے لیے ہمیں کڑی تپسیا اور ریاضت کی ضرورت ہے۔ رائے کوٹ کے کٹھن سفر کے لیے میدانِ کارزار میں کشتوں کے پشتے لگانے کے برابر پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔ پسِ منظر میں شدید ادبی و غیر ادبی موشگافیاں بھی کارِ فرما تھیں۔ وہ وقتاً فوقتاً بمباری کی صورت میں ہم پر برستی تھیں۔ یہ شرلیاں جلتی پہ تیل ڈالنے یا بھس میں چنگاری ڈالنے کے مترادف تھیں۔ یہ ایک تسلسل سے لواری سرنگ کی مانند ہچکولے کھلائے جاتی تھیں۔
~
اسی دوران پیچ در پیچ شاہراؤں، بل کھاتے ندی نالوں، دشوار گزار راستوں کا ملاپ کرواتے پلوں اور ناقابلِ عبور پہاڑی دروں کے درمیان قدرتی مناظر کی طرح مزین ہمارا مبینہ شہ پارہ (آہم) منظر عام پر آیا۔ جب اس نے مقبولیتِ عام کی سند پائی تو سب کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ نتیجتاً بے شمار نابغہَ روزگار قلم کار اور نو آموز لکھاری مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ شنید ہے کہ اب وہ پائے اور فیری میڈوز میں گھاس کے قطعات پر ڈیرے ڈالے سستا رہے ہوں گے۔ ہم نے بہتراّ انہیں ہلاشیری دینے کی کوشش کی، ”گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں“۔۔۔ تاہم وہ ہاتھ جھاڑ کر اپنے تئیں بقایا مہمات سے سبک دوش ہو بیٹھے۔ لاکھ ہم نے سر پٹخا، پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یوں سمجھیے ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
اس ساری ہماہمی میں چند مہم جویانہ فطرت والے سیاح اپنے مقصد میں محو رہے۔ وہ دیو ہیکل برفانی تودوں، بپھرے دریاؤں، ریگستانوں، برف پوش چوٹیوں اور سنگلاخ پہاڑوں کے راستوں سے نبرد آزما رہے۔ باقی مخلوق پیالہ، کٹورہ، آنسو اور عطاء آباد جھیل کے آبی ذخائر کے پانی میں ڈوب کر امر ہو گئی۔
~
ارادہ تو ہمارا بھی شنگریلا جیسا شہ کار تخلیق کرنے کا تھا۔ لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“ کے مصداق ہمارے خوابوں کی دنیا نانگا پربت سر کرنے کے مترادف نکلی۔ ہماری ناتمام حسرتیں کے۔ٹو کی بلندی پر متمکن ہو کر نیر بہانے لگیں۔ شمشال اور حراموش کے راستے خاموشی سے ہماری راہ تکنے لگے۔ ہمیں اپنے تخیل کے بنجر کھنڈرات پہ ہڑپہ و موہنجوڈارو کا گماں ہونے لگا۔ اور اب ہم دریدہ دامن جھاڑ کر ہنگول کے مجسموں کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔
بتاریخ ۲۰ ستمبر ۲۰۱۶
شدید ہنگامی نگارشات کا حصّہ اوّل ہنگامی نگارشات از فہمیدہ فرید خان