ناول: عکس
مصنفہ: عمیرہ احمد
تبصرہ: فہمیدہ فرید خان
یہ اگست ۲۰۱۱ء کی بات ہے۔ میں نے پاکیزہ کا نیا شمارہ پڑھنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ میری بھانجی پاس آ بیٹھی۔
چیمی نسالہ پٹی او؟ (فہمی رسالہ پڑھتی ہو؟)
ہاں جی
کون چھا؟ (کون سا؟)
پاکیزہ
اچھا مجھے کانی پڑھو۔ (مجھے کہانی سناؤ۔)
~
میں نے صفحہ پلٹا تو عکس کی پہلی قسط سامنے تھی۔ آغاز میں اس کا تعارف لکھا تھا مگر کہانی بونوں کی لگ رہی تھی۔ میں نے بھانجی کو قریب کیا، ”آؤ آپ کو بونوں کی کہانی سناتی ہوں۔“ تاہم میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ عمیرہ احمد نے یہ کہانی بچوں کے لیے لکھی ہے کیا؟ بھانجی کو چند صفحے کاٹ پیٹ کر سنائے جو اس نے پوری توجہ سے سنے لیکن سوال پوچھ پوچھ کے ناک میں دم کر دیا۔
میں نے سوچا تھا کہ ہر مہینے اسے عکس کی کہانی سنایا کروں گی مگر جب میں نے قسط مکمل کی تو مجھے ادراک ہوا کہ چھوٹی سی بچی کو سوائے بونوں کے اور کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔ بعد میں وہ کہانی سننے آتی جو مجھے خود سے گھڑ کے سنانا پڑتی تھی۔
ڈی سی ہاؤس کے آئینے میں چڑیا سے ڈاکٹر عکس مراد علی بننے کے سفر کا عکس تھا۔ شہباز کی ہوس، چڑیا کی اذیت۔۔۔ اس کا سنبھلنے اور جدوجہد کی کہانی۔۔۔ خیر دین کی قربانی اور اس کے مالکان کا احساسِ ذمہ داری۔۔۔ کانونٹ کی انتظامیہ کا ایثار۔۔۔
~
چڑیا کی زندگی میں اگر اذیتیں اور تکالیف تھیں تو ہاتھ پکڑ کر اس دلدل سے نکالنے والے لوگ بھی تھے… اس کے پاس سب سے پیارا اور محبت کرنے والا رشتہ خیر دین تھا۔ وہ اس کے لیے سب سے مضبوط ڈھال تھا جو کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے والا شیر دل تھا۔ اس کو آگے بڑھانے اور پڑھانے کی ذمہ داری لینے والے خیر دین کے مالکان تھے۔ مدد کو اس کا تعلیمی ادارہ تھا… لیکن سب سے بڑھ کر اس کے پاس لیاقت، ذہانت اور آگے بڑھنے کی دھن تھی اور مشکلات کو پچھاڑنے کا حوصلہ تھا۔
اگر وہ ڈری سہمی چڑیا سے چٹانی حوصلے والی ڈاکٹر عکس مراد علی بننے کے بعد سی ایس ایس بھی کر گئی تو اس کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے۔ اس نے دکھایا کہ شہباز جیسے کرداروں کے ہوتے ہوئے کیسے گر کر سنبھلنا ہے۔ اس نے بتایا کہ سعی، کوشش اور محنت سے ہر چیز پانا ممکن ہے۔ مردوں کے معاشرے میں مردانہ وار مقابلہ کر کے دکھایا۔ اس نے ثابت کیا کہ غریب پیدا ہونا آپ کا قصور نہیں، لیکن غربت میں مرنا آپ کا اپنا انتخاب ہے۔
~
ایبک شیر دل ایک ایسا کردار تھا، جو مرکزی کردار ہوتے ہوئے بھی پس منظر میں رہا۔ عکس میں ہیرو کی جگہ خیر دین نے سنبھال لی تھی۔ بچپن میں ایبک کے نام سے چڑیا کے ساتھ چیس اور ٹینس سمیت دوسرے کھیل کھیلنے والا کوئی اور نہیں ایبک شیر دل ہی تھا… جو شہباز کا بھانجا تھا اور اس نے چڑیا پر ہونے والے ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آفیسرز میس میں چوہے والے واقعے سے وہ چونک گیا۔ یوں ایک نئی کہانی کی شروعات ہوئی، جس میں ایک ایبک شیر دل تھا، ایک عکس مراد علی تھی اور ان کے بیچ شہر بانو شہباز تھی۔ درمیان میں کچھ وقت کے لیے عکس کا نام نہاد منگیتر بھی ٹپکا تھا۔
~
شیر دل کی اپنی بیٹی مثال سے محبت نے متاثر کیا۔ شہر بانو کبھی مظلوم لگتی اور کبھی ظالم… خاص طور پر وہ طلاق کے مثال کے ساتھ سختی کرتی تھی۔ اس کی ماں مہر بانو مجھے سخت زہر لگی تھی۔
عکس کا سب سے بہترین کردار خیر دین کا رہا۔ باورچی ہونے کے باوجود اس کی سوچ بہترین تھی اور نیت میں اخلاص تھا۔ اس کا پختہ یقین ہر کسی کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ وہ چڑیا کو مشکلات سے مقابلہ کرنا نہ سکھاتا تو حیرت ہوتی۔ نامساعد حالات میں بھی سپر نہ ڈالنے پر خیر دین کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی۔ اس ناول میں پڑھنے کے لیے بہت کچھ ہے، خاص طور پر بیوروکریسی سے متعلق۔
میرا فیورٹ ناول ہے۔ بار بار پڑھے جانے کے قابل اور واقعی خیر دین بہترین کردار رہا۔ مجھے شہر بانو پہ ترس ہی آیا ❤️