Home » Fehmiology Recounts » میری جدوجہد کی کہانی، میری زبانی

میری جدوجہد کی کہانی، میری زبانی

فہمیدہ فرید خان

Fehmiology Recounts

0

میری جدوجہد کی کہانی، میری زبانی

میری یادگار اُردو تحریریں

Follow
User Rating: 3.34 ( 4 votes)

میری جدوجہد کی کہانی، میری زبانی

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کیسے ہیں آپ سب؟

میں یہاں اپنے تجربات کا نچوڑ پیش کرنے جا رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کچھ سیکھنے کو ملے۔ آپ نے نہ بھی سیکھا تو مجھے اطمینان ہے کہ میں کچھ نہ کچھ سیکھ چکی ہوں۔ یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ میں نے سوچا مجھے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی کام بھی کرنا چاہیئے۔ اس ضمن میں مجھے پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

۔

میں ان دنوں پی ایس سی (پبلک سروس کمیشن) سے تازہ تازہ زخم خوردہ تھی۔ جس آسامی کے ٹیسٹ/انٹرویو دونوں میں ٹاپر تھی، وہ کسی اور کو مل گئی تھی۔ جواز یہ تراشا گیا، ”چونکہ آپ معذور ہیں، اس لیے یہ جاب آپ کو نہیں مل سکتی۔“ اس ناانصافی پر مجھے شدید غصہ آیا۔ میں نے سوچا ملازمت تو ملنی نہیں، ان کو سنا کر ہی جاؤں گی۔ تاکہ ان کو پتہ چلے کوئی فہمیدہ بھی آئی تھی۔ میں نے آدھا گھنٹہ سیکریٹری صاحب کو ٹانگ کر رکھا۔ انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ مجھے متبادل آسامی مہیا کی جائے گی۔ (وہی وقتی جان چھڑانے کے حربے۔) وہ دن ہے اور آج کا دن، وعدہ وفا نہ ہوا۔ اس واقعہ کو بھی اب مدتیں بیت چلی ہیں۔ وہ سیکریٹری صاحب رب جانے کہاں ہوں گے۔

میں نے اس دوران سیکشن آفیسر کی آسامی کے لیے بھی اپلائی کیا تھا۔ شومئی قسمت اس میں معذور افراد کا کوٹہ بھی تھا۔ لیکن اس امتحان کا اتا پتہ ہی نہیں تھا۔ تاریخ کا اعلان ہوتا اور ساتھ ہی حکمِ امتناعی لگ جاتا۔ میں پورے دو سال اس عذاب سے بارہا گزری۔ آسامیاں دیکھنا، درخواستیں لکھنا، دستاویزات جمع کروانا، بینک چلان بھرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مون نے اس پر دل جلا تبصرہ کیا، ”اگر میں کسی دن فہمی کی ڈگری پر پکوڑے کھا رہا ہوں گا تو مجھے قطعی حیرت نہیں ہو گی۔“ وہ بھی کیا کرتا، میرے کاغذات فوٹو سٹیٹ کروا کروا کے تھک گیا تھا۔

۔

یہ ناکام کشٹ اٹھانے کے بعد مجھے شدید ڈپریشن ہو گیا تھا۔ میری حالت اتنی ردی ہو چکی تھی کہ میں ہمہ وقت غصے میں رہنے لگی۔ یا بیٹھے بیٹھے رونا شروع کر دیتی تھی۔ چھ ماہ مزید اس بزرخ میں گزرے۔ میں کبھی بھی ایک کیفیت میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔ اب سوچوں تو حیرت ہوتی ہے میں نے ڈھائی تین سال اکٹھے اس کیفیت میں کیسے گزار دیئے۔

ایک دن میں خوب روئی۔ رو دھو کر دل کی بھڑاس نکالی۔ پھر سکون سے بیٹھ کر اپنا تجزیہ شروع کیا، ”یہ میں کیا کر رہی ہوں؟ کیوں اتنا وقت ضائع کیے جا رہی ہوں۔“ میں ایسی کبھی بھی نہیں تھی۔ ہمارے سب جاننے والے اور ہمسائے ہمیشہ کہتے تھے کہ فہمی بہت بہادر اور ہنس مکھ ہے۔ اس کو ہم نے کبھی دکھی یا غم زدہ نہیں دیکھا۔ مگر اب یہ دور مجھ پر حقیقتاً بیت رہا تھا۔ مایوسی کا دور دورہ تھا اور ہم تھے دوستو۔۔۔

۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ادھر میرا بی ایڈ مکمل ہوا، ادھر بطورِ لیکچرر معاشیات میری تعیناتی ہو گئی۔ میں نے اپنے پہلے ماسٹرز کے ساتھ ساتھ بی ایڈ کیا تھا۔

لیکن ذرا رکیے۔۔۔

میری زندگی میں آسانی در آئے، یہ کیسے ممکن تھا؟ اچانک میری لیکچرر شپ والی فائل غائب ہو گئی۔ یہ میرے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ فائل کی بازیابی کے لیے ڈھنڈیا مچ گئی۔۔۔ میرے گھر والے دفتر دفتر پھرے۔۔۔ الماریوں کا کونا کونا چھان مارا مگر فائل ہوتی تو ملتی۔ فائل کہاں گئی تھی؟ #اس_کے_پیچھے_بھی_ایک_کہانی_ہے

فی الحال واپس وہاں جاتے ہیں جہاں میں نے اپنا تجزیہ شروع کیا تھا۔ میں نے سوچا، فوری طور پر میں کون سا کام کر سکتی ہوں؟ مجھے اس سارے جھنجھٹ سے نکلنا تھا۔ اس سارے لفڑے میں میری ازلی برداشت کم پڑ گئی تھی۔۔۔ یادداشت پر بہت برا اثر پڑا تھا۔۔۔ سب سے بڑھ کر میں قنوطی ہو گئی تھی۔ قنوطیت مجھے کبھی پسند نہیں رہی تھی، اپنے لیے، نہ کسی اور کے لیے۔۔۔ میں پیدائشی باہمت تھی، حالات کے سامنے سِپر کیوں کر ڈال دیتی؟

مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ ممی کی اون سلائیاں الجھاتے سلجھاتے جانے کب چھوٹی چھوٹی چیزیں بننا سیکھ لیا تھا۔۔۔ میں سادہ چیزیں نہیں بُنتی تھی بلکہ زبردست قسم کے ڈیزائن تخلیق کیا کرتی تھی۔ فرمائشیں بھی بہت آتی تھیں کہ میرے بچے کے لیے ڈیزائنی ٹوپی موزے بنا دو۔ سویٹر میں صرف اپنے لیے بنایا کرتی تھی۔۔۔ یہ خیال آنا تھا کہ اون منگوائی، سلائیاں میرے پاس موجود تھیں۔۔۔ چوں کہ میں جوڑ توڑ کے عمل سے گزر رہی تھی، اس لیے چھوٹی چیز سے نئے تجربات کرنے کا آغاز کیا۔ جی ہاں، اس مرتبہ میں جوتے بنانا سیکھنے والی تھی۔

۔

میں نے گوگل چاچا سے جوتے بُننے میں معاونت کی استدعا کی۔ انہوں نے یوٹیوب کے لنک دکھانا شروع کر دیئے۔ تب یوٹیوب سے میرا تعارف یہ تھا کہ بہت بری جگہ ہے۔ دنیا جہان کا گند بھرا پڑا ہے وہاں بلا بلا۔۔۔ تاہم میں ہر جگہ اپنے طریقہ کار سے ہی چلتی ہوں۔ سوچا دیکھ لیتی ہوں، اس نے کون سا مجھے ہاتھ پکڑ کر برائی ہی دکھانی ہے۔۔۔ بس جی بسم اللہ پڑھ کر ایک لنک کھولا۔ آگے برائی صاحبہ تو نہ دکھیں، بچوں کے پیارے پیارے خوبصورت جوتے ضرور دکھائی دے گئے۔ فہمی صاحب کی باچھیں چر کر کانوں سے جا لگیں۔ ”ارے واہ کتنے پیارے جوتے ہیں، میں یہ سب بنانا سیکھوں گی۔“ ہنسیئے گا مت کہ ڈھائی سال بعد عزمِ نو تازہ کیا، تو وہ بھی جوتے بنانے کے لیے۔۔۔ میرے لیے اس سارے قضیے سے نکلنا اہم تھا، باقی سب ثانوی۔

جاری ہے۔

فہمیدہ فرید خان کی گزشتہ تحریر بھی پڑھیئے عالمی یومِ معذوراں کی سرگزشت

بتاریخ ۲۰ جنوری ۲۰۲۲ء

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *