ناول: آمرزش
مصنفہ: نوشین ناز اختر
تبصرہ: فہمیدہ فرید خان
۱۲/۰۱/۲۰۱۹
کون ہے؟ ایک دم سے ولی کو اپنے پیچھے سے آواز آئی۔ ولی نے سسکیاں لیتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
میں… میں، ولی۔
ولی؟ تو ولی ہے؟ تو اگر ولی نہ ہوتا تو کون ہوتا؟
انہوں نے ولی کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آمرزش، یہ طویل ناول میں نے ایک دن میں پڑھا اور شاید دل کی آنکھ سے پڑھا۔
~
اے اللہ! تو ہی مدد کر۔ تو ہی بچانے والا ہے۔
آمرزش کا آغاز حویلی عبداللہ میں آگ لگنے کے واقعہ سے ہوا اور ابتدائیہ مجھے چپکے سے اپنے ساتھ کھینچ لے گیا۔ میں اس کی روانی کے ساتھ بہتی چلی گئی۔ یہ ولی اور نگینہ کی کہانی تھی۔ دو بہن بھائی جو آگ میں جھلسنے سے بچ گئے۔ ان کو احمد شاہ اور روشن آرا کی آغوش میسر آئی۔ انہوں نے بچوں کو زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر ان کی مثالی تربیت کی۔
آمزرش مسکان کی کہانی بھی تھی۔ اس کی ولی کے لیے جنوں خیزی نے طوفان برپا کر دیا۔ مسکان نے اپنے باپ سرفراز شاہ کو کئی بار اصول توڑنے پر مجبور کیا۔ اس گھر میں نفیسہ یعنی آیا اماں بھی تھیں۔ سرفراز شاہ کے ستم سہہ کر بھی مسکان کی مرحومہ ماں صائمہ کی خاطر اس کے لیے ڈھال بن گئیں۔
~
اسی آمرزش میں عبداللہ شاہ بھی تھے۔ ان کے سوتیلے بھائی سرفراز شاہ نے دولت کی ہوس میں پورے خاندان کو جلوا دیا۔ عبداللہ شاہ اپنے گاؤں کو سہولیات دینے کی پاداش میں منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ان کی بیوی عائشہ پر سرفراز شاہ کی نظر تھی مگر مقدر نے یاوری نہ کی۔
یہ ناول ہے یعنی آمرزش بلال کا بھی قصّہ تھا۔ اس کا بدن ایک ایسی ان دیکھی آگ کی تپش میں جھلستا تھا جس پر کوئی علاج کارگر نہ ہوتا تھا۔ ایک شہربانو بھی تھی بلال کی بیوی، جسے سرفراز شاہ نے مسکان کے شوہر کو مروانے کے بعد اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سرفراز شاہ کے لالچی داماد کی بہن تھی۔ جب اس نے حویلی کے کنوئیں میں کود کر جان دی تو بلال بھی اس کے پیچھے چھلانگ لگا گیا۔ عبداللہ اور سرفراز کی ایک پھوپھی فاطمہ کی قسمت میں زندان تھا۔ یہ سزا ان کے بھائیوں کا تحفہ تھی۔ ایک بھائی عاشق علی کو پچھتاوے ڈستے تھے جب کہ نوازش علی کی رسی دراز تھی۔
~
پھر سدرہ اور مریم تھیں، عبداللہ شاہ کی بہنیں۔ ایک ڈاکٹر فیصل تھا، جس کی محبت میں سدرہ گرفتار تھی۔ اس کے خاندان کو بھی سرفراز نے زندہ جلا دیا۔ فیصل کی بہن نفیسہ کو سرفراز نے اٹھوا لیا تھا۔ ہر طویل ناول کی طرح آمرزش میں بھی ایک بابا جی تھے جن کے پاس کشف و کرامات تھیں۔ ان کا مخصوص جملہ دل میں کھب کر رہ گیا، کھاؤ/پیو، یہ تمہارے حصٌے کی نعمت ہے۔ یہی بابا جی ولی اور نگینہ کے نجات دہندہ تھے۔
احمد شاہ اور روشن آرا کے علاوہ قاسم علوی جیسے بے غرض لوگ بھی آمرزش کا حصّہ تھے۔ انہوں نے کسی کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پالا مگر بدلے کے خواہش مند نہ تھے۔ اور ہاں انور جاوید کا لالچ اور حسن آرا کا توکل بھی تو تھا۔ ان کی بیٹی علیزے بھی تھی، جو ولی کی محبت و منگیتر تھی۔ منزہ اور کاشف تھے، جو اندھی خواہشات کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے تھے۔ سائرہ اور طارق تھے، جو اپنی سگی خالہ نیلوفر کی سازش کا شکار ہو کر ماں باپ سے محروم ہو گئے۔ سارہ تھیں، جو اپنی بدگمانی پر روتے روتے ایک دن راہی عدم ہو گئیں۔ شہباز تھے، جو اپنے بچوں کے لیے تڑپتے تھے۔
~
کوئی ایمان فاطمہ تھی، جو ترنم بن کر بھی اللہ کو پیاری تھی۔ کبھی وہ ولی کی جان بچانے کا وسیلہ بنی تو کبھی ولی اس کو بچا گیا۔ آمرزش کے آخر تک ان کا تعلق مبہم ہی رہا…!! ترنم اور ماہی نے اپنی جان پر کھیل کر نگینہ کو راگنی کے چنگل سے سے چھڑوایا۔ وہی طارق کو ثبوت بھی فراہم کرتی رہی۔ ایک ماہی تھی جو بری تھی۔ وہ کسی کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان سے گئی۔ وہ پرسکون تھی کہ برائی میں رہتے رہتے اچانک تائب ہو گئی تھی۔
آمرزش میں معاشرے کا ناسور چاندنی اور راگنی بھی تھیں۔ ان کے ہاتھ بہت لمبے تھے اور وہ ہر بار بچ نکلتی تھیں۔ غیر ملکی آقاؤں نے انہیں جدید ترین ٹیکنالوجی مہیا کر رکھی تھی۔ ان کے پالتو مارک جیسے لوگ تھے جو سرتاپا گندگی میں لتھڑے ہوئے تھے۔ انجامِ کار طارق نے ان کے نیٹ ورک کو نیست و نابود کر دیا۔ طارق برائی کی قوتوں سے برسرِ پیکار تھا اور جسے نگینہ سے محبت تھی۔ ایک سحرش تھی، جسے راگنی کے کارندوں نے بھنبھوڑ کر پھینک دیا۔ اس کا سارا خاندان تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ بعد میں طارق نے ہی اس کا سر ڈھانپا تھا۔
~
ایک زبیدہ تھیں، جو ہر چیز دھوتی رہتی تھیں۔ انہیں ہر شے گندی لگتی تھی۔ قاسم علوی تھے، جو زبیدہ نفسیاتی بیماری کے باوجود نبھا کر رہے تھے۔ سمعان علوی تھا جو ان جانے میں مسکان سے متاثر ہو گیا تھا۔ سائرہ تھی، جو مسکان کی وجہ سے ولی کو رگیدتی رہتی تھی۔ وہ سمعان کو پسند کرتی تھی۔ سمعان وہی تھا جسے قاسم علوی نے اپنا نام دیا تھا۔ ایک ٹی ٹو تھا، ولی کا دوست جو بظاہر لاابالی تھا لیکن اندر سے حساس تھا۔
عبداللہ بھی تو تھا، ڈاکٹر فیصل کا بیٹا اور ولی کا شیدائی۔ اسے پاکستان ایک فرض یا قرض کھینچ لایا تھا۔ اس نے ولی کی قربانی کو ضائع نہیں جانے دیا۔ پھر رحیم خان جیسا ملازم بھی تو تھا، جس نے تمام عمر ایک راز کی حفاظت کی۔ مگر ذرا ٹھہریئے… آمرزش میں ایک مضبوط ولن بھی تھا، جس کے گرد کہانی کا سارا تانا بانا بنا گیا تھا۔ جی ہاں، وہ سید سرفراز شاہ تھا۔ اس نے اپنے راستے میں آنے والے ہر شخص کو تباہ و برباد کر دیا… لیکن اولاد کے ہاتھوں شکست کھا گیا اور بالآخر خود سوزی کر کے دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
~
آمرزش کی کہانی تھی کیا؟ یہ آپ خود پڑھ کر دیکھیں، مایوسی نہیں ہو گی۔ نوشین ناز اختر کی تحریر کردہ یہ داستان آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لے گی۔
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنٰی رانا