امرتا پریتم ادب کی دنیا کا ایک مایہ ناز نام ہے۔ انہوں نے پنجابی، ہندی اور انگریزی زبان میں افسانے اور شاعری لکھی۔ وہ پاکستان میں پلی بڑھیں مگر تقسیم کے بعد ہندوستان منتقل ہو گٸیں۔ اس لیے ان کی لکھی گئی کہانیاں اپنی اپنی سی لگتی ہیں۔ ان افسانوں کے عنوان اور سیاق و سباق کسی ایک دور کے لیے مختص نہیں۔ وہ عورت کے کردار کو ایک مضبوط، سمجھدار اور ٹھہراؤ کے حامل فرد کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
امرتا پریتم نے بہت چھوٹی عمر میں ماں سے ابدی جدائی کا دکھ سہا۔ شادی شدہ زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ نقل مکانی اور ایک یکسر اجنبی معاشرے میں جا بسنے کی مشکلات کاٹیں اور محبت میں نارسائی برداشت کی۔ ان سب حالات و واقعات نے ان کی تحریروں کو بہت دلسوز بنا دیا جو قاری کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان میں دکھ تو ہے مگر ساتھ ہی زندگی کو سہہ جانے اور جیتے چلے جانے کا عزم بھی ہے۔
۔
یہ کتاب امرتا پریتم کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ہر افسانہ ایک نئی دنیا سے متعارف کرواتا ہے۔ مگر ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے محبت۔ یہ محبت ایسی نہیں کہ کسی کردار کو توڑ دے یا مایوس کر دے۔۔۔ بلکہ اس الوہی جذبے سے کشید کردہ ہمت زندگی گزارنے کے نئے اطوار سکھاتی ہے۔ ان افسانوں میں یادوں سے لمحات کو معمور کرنے کی جہت نمایاں ہے۔ محبت کو خود پر حاوی کر لینا اور اس میں ڈوب کر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جانا کوئی کمال نہیں۔ اس درد کو مشعلِ راہ بنا لینا اور اس آگ سے کندن بن کر نکلنا کمال ہے۔ اس کسک کو آنسوؤں میں بہانا ٹھیک نہیں۔۔۔ بلکہ ایک قیمتی متاع حیات سمجھ کر دل میں بسا کر اپنی شخصیت کی آبیاری کرنی ہے۔
امرتا پریتم کی کہانیوں کے اختتام خوشگوار نہ سہی مگر یہ آپ کو مایوس نہیں کرتے بلکہ ایک امید دلاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں روانی ہے۔ پڑھنے والا جذبات کے اس بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔زبان اتنی نفیس اور فی زمانہ خرافات سے دور ایسی کہ محبت ہو جائے۔
تبصرہ نگار: سدرہ جاوید
نور القلوب پر آبان احمد کا تبصرہ بھی پڑھیں۔