اک عمر کے طلسم میں
دو دن قبل جبکہ ہمارا نیٹ خراب تھا، میں نے بیزاریت کا توڑ کرنے کے لیے کوئی پرانا ناول پڑھنے کا سوچ کر ڈرائیو کھولی اور میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مطلوبہ ناول کے علاوہ دنیا جہان کا سامان پڑا تھا۔ ان میں سرِ فہرست تاریخی کتب تھیں۔ میں ہما کوکب بخاری کا نام دیکھ کر ٹھہر گئی۔ کیوں کہ وہ میری پسندیدہ مصنفات میں سے ایک ہیں۔ ایک مرتبہ آبان نے مجھے ہما کوکب بخاری کے چند ناول دیئے تھے۔ ان میں سے ”بیتے پل کا سایہ“ مجھے عین بین یاد تھا، تو یہ نہیں پڑھنا تھا۔ ”اکھاں چھم چھم وسیاں“ اداس تحریر سمجھ کر چھوڑ دیا۔ لے دے کر ”اک عمر کے طلسم میں“ باقی بچا تھا، سو وہی کھول لیا۔
.
اک عمر کے طلسم میں سعدیہ نذر کی کہانی تھی۔ آپ پوچھیں گے سعدیہ نذر کون تھی؟ اور اس کی کہانی میں نیا پن کیا تھا؟ اس کے لیے مجھے پسِ منظر پر بات کرنا پڑے گی۔ کہانی بنیادی طور پر زنا بالجبر پر تھی۔ تاہم اس میں کئی مزید معاشرتی برائیاں بھی آشکار کی گئیں۔ مثلاً ڈاکٹروں کی ریشہ دوانیاں اور سپروائزر کی کارستانیاں۔ گو انداز ڈھکا چھپا تھا۔ کتاب کی اشاعت کا سال ۲۰۱۰ء درج ہے۔ لیکن کہانی یقیناً اس سے کہیں پہلے شائع ہوئی ہو گی۔ اس زمانے میں متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانا بجائے خود دلیرانہ اقدام تھا۔ اس پر طرہ، صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، والا معاملہ بھی درپیش تھا۔
.
اک عمر کے طلسم میں سعدیہ نذر پندرہ برس کی عمر میں انیس شاہ کی زیادتی کا نشانہ بنی تھی۔ قبل ازیں اس کے والد ایک حادثے میں بستر پر لگ گئے تھے۔ یوں سعدیہ کو میدانِ عمل میں نکلنا پڑا۔ ایک پڑوسی کی مدد سے اسے ظفر علی شاہ کے کارخانہ میں مصالحوں کی پیکنگ کا کام مل گیا۔ ان کا برادرِ نسبتی انیس شاہ وہاں راجہ اِندر بنا پھرتا تھا۔ اس نے سعدیہ کو کم سن سمجھ کر لبھانے کی کوشش کی۔ سعدیہ کی ذہنی پختگی کے باعث ناکامی پر انیس شاہ نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ کچھ عرصہ بعد کسی تبدیلی کی آہٹ پر سعدیہ کی ماں نے اس کا طبی معائنہ کروایا۔ ابتدائی جھٹکے سے سنبھل کر وہ انیس شاہ سے اپنے بچے کے لیے نام کی بھیک مانگنے گئی۔ وہ اپنے بچے عباس شاہ کے ساتھ صحن میں کھیل رہا تھا۔ وہ سعدیہ کو پہچاننے سے صاف مکر گیا۔ اس کی بیوی اور بہن نے سعدیہ کو دھتکار کر گھر سے نکال دیا۔ سعدیہ کی اماں پیدائش کے بعد بچے کو کہیں چھوڑ آئیں۔ سعدیہ سے اس کا بچہ بھی چھن چکا تھا۔ اس نے از سرِ نو پڑھائی شروع کی۔ یہاں سے اس کی جدوجہد کی کہانی شروع ہوئی۔
.
وہ بچہ کہاں گیا؟
سعدیہ نے کیسی زندگی گزاری؟
انیس شاہ کا کیا بنا؟
کیا سعدیہ اپنے بچے سے مل پائی؟
سعدیہ نے ڈاکٹریٹ کر لی تھی۔ وہ اکیس برس بعد وطن واپس لوٹ آئی۔ جامعہ میں اسے تانیا کے ہم جماعتوں کا ایک کھلنڈرا ٹولہ مل گیا۔ فیضان علی شاہ کی بیٹی تانیا کو سعدیہ نے ماں کا پیار دیا تھا۔ تانیا کے گروہ میں وہ بھی تھا، یعنی انیس شاہ کا بیٹا عباس شاہ۔ یہاں سے اک عمر کے طلسم میں کی کہانی میں انسانی نفسیات کی گھمن گھمیریوں کا آغاز ہوا۔ عباس شاہ کو دیکھتے ہی سعدیہ کے دل میں جوار بھاٹا اٹھنے لگتا تھا۔ وہ اسے ہر طریقے سے رد کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کشمکش کے باعث عباس شاہ اور تانیا کا تعلق غیر یقینی کا شکار ہو چلا تھا۔
اک عمر کے طلسم میں تسلسل تھا، روانی تھی، جذباتیت تھی اور کچھ کچھ فلمی انداز بھی تھا۔ مثلاً سعدیہ کی اماں نے اسے یہ کبھی نہ بتایا کہ انہوں نے بچہ کہاں چھوڑا تھا۔ تانیا کے دوستوں کی دعوت والے دن سعدیہ پر عباس شاہ کی حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ اسی کا بیٹا ہے۔ رونے دھونے اور معافی تلافی کے بعد بہت کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ آخری حصے میں کہانی جلدی جلدی لپیٹ دی گئی۔
۔
انیس شاہ واپس آیا تو اسے بھگا دیا گیا۔ تانیا اور عباس شاہ کے تعلق کو انجام تک پہنچایا گیا۔ لیکن مؤثر وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے تشنگی ہنوز رہی۔ عباس شاہ کے پالنے والوں (ظفر علی شاہ و بیگم) کو کسی نے مطلع کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ آخر میں آبان والی دہائی کہ سب کو ہنسی خوشی رہتا دکھا دیتے۔ تاہم اس کے باوجود اک عمر کے طلسم میں وقت گزاری کے لیے کافی اچھا ناول ہے۔
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
گزشتہ تبصرہ بھی پڑھیں۔