مکمل ناول: اک محبت کی جستجو
مصنفہ: صائمہ نور
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
اشاعت: اپریل ۲۰۲۴ء
ماہنامہ خواتین ڈائجسٹ
ہمارے علاقے میں مخنث بڑی تعداد میں ہیں۔ ان میں اکثریت کو ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں۔ ہمارے لڑکپن تک خواتین کی قطع وضع والے دو مخنث راستے میں آتے جاتے مل جاتے تھے۔ ہیری (شاید ہیرا کی مؤنث) ماسی اور شیری ماسی، شفقت و محبت لٹانے والی۔ ان کی سب عزت کرتے تھے اور وہ بھی جھولیاں بھر بھر دعائیں دیتے تھے۔ پھر ایک این جی او میں ملازمت کے دوران ایک مخنث کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جو وہاں اکثر مانگنے آتا تھا۔ مردانہ نقوش لیکن زنانہ پہناوا۔۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ کے چادر کی بکل مارے پھرتا تھا۔ پھر جب آگاہی ملنا شروع ہوئی تو یہ مشاہدہ سچ ثابت ہوتا نظر آیا۔ ہمارے معاشرے میں تیسری جنس کے لوگ جس استحصال کا شکار ہیں، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اک محبت کی جستجو
ماہِ اپریل میں صائمہ نور نے اپنا ناول شائع ہونے کا مژدہ سنایا لیکن موضوع بوجوہ زیرِ بحث نہ آ سکا۔ بیچ میں عید آ گئی تو یہ سلسلہ دراز ہو گیا۔ میرا مطالعہ کا معمول دوبارہ ڈگر پہ آیا ہے تو سوچا لگے ہاتھوں ”اک محبت کی جستجو“ بھی پڑھ لیتی ہوں۔
میں نے ”اک محبت کی جستجو“ کو عام سا ناول سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا۔ لیکن چاند کے ذکر پر مجھے چونکنا پڑا جو تیسری جنس سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے گھر والوں نے روایتی رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے چاند کو بطورِ انسان قبول کیا نہ خاندان کا حصہ تسلیم کیا۔ والدین اور بہن بھائیوں کے نزدیک وہ محض ایک مخنث تھا۔
چاند کو ایک مخصوص ادارے میں بھیج دیا گیا۔ والد کا یہ فعل چاند کے جڑواں بھائی ولی کو پسند نہ آیا اور وہ والدین سے ذہنی و قلبی لحاظ سے دور ہو گیا۔ اس نے صرف سولہ سال کی عمر میں چاند کو اپنے ساتھ رکھنے کی خاطر الگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ولی کا یہ فیصلہ اسے مزید تنہا کر گیا لیکن وہ ڈٹا رہا۔ بالآخر اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ مصنفہ نے ”اک محبت کی جستجو“ میں ایک حساس موضوع کو چابک دستی اور عرق ریزی سے لکھا۔ ولی کی جدوجہد اور چاند کی نفسیاتی الجھنوں کو خوبصورتی سے تحریر کیا۔ کہیں کھل کے لکھا، کہیں ڈھکے چھپے انداز میں۔
اک محبت کی جستجو
جگنو۔۔۔ ”اک محبت کی جستجو“ کا ایک اہم لیکن الجھا ہوا کردار۔ جگنو وہ واحد لڑکی تھی جو چاند کو انسان اور رشتہ دار مانتی تھی۔ وہ اس کے دکھ سکھ بانٹتی تھی۔ ماں سے محرومی نے اس کی شخصیت میں کئی کجیاں پیدا کر دی تھیں۔ لیکن اس کی فطری اچھائی ان خامیوں پر حاوی ہو جاتی تھی۔ ولی چاہتا تھا جگنو زندگی کو سنجیدہ لے لیکن وہ لاپروا اور لاابالی تھی۔ پھر ولی کے ہی ایک جملے نے اس کے احساسات پر کاری ضرب لگائی۔ وہ ہر چیز سے دستبردار ہو گئی، ولی کی محبت سے بھی۔
پھر وہ ولی کی زندگی میں شامل کر دی گئی لیکن دونوں میں رشتہ پنپ نہ سکا۔ چاند نے ولی سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ جگنو سے شادی کر لے گا تو وہ اپنی زندگی بنائے گا۔ ”اک محبت کی جستجو“ کی سب سے اچھی بات مجھے یہی لگی کہ مصنفہ نے چاند کے کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کیا اور اسے انجام تک پہنچایا۔ ولی نے مشکلات کے باوجود بھائی کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر جگہ اس کی ڈھال بنا رہا۔ صائمہ نور نے مثبت تبدیلیاں لانے کے پیچھے کار فرما عوامل و عواقب کو سلیقے سے تحریر کیا۔ جگنو (وانیہ) اور ولی کا ہلکا پھلکا رومان بھی خوب تھا۔ کھڑوس ہیرو کے چاہنے والے ولی کو یقیناً پسند کریں گے۔ جگنو کی بونگیاں بھی یقیناً آپ کو محظوظ کریں گی۔
گزشتہ تبصرہ کوئی رنگ بھری سحر اترے – عالیہ بخاری