Home » Book & Literature Review » بستی | انتظار حسین

بستی | انتظار حسین

بستی | انتظار حسین

تبصرہ

ب٘ستی

انتظار حسین کا دل فگار ناول

Follow
User Rating: 3.15 ( 4 votes)

بستی از انتظار حسین

تبصرہ از فہمیدہ فرید خان

بتاریخ ۲۷/۰۸/۲۰۱۸

کل حصار نے مجھ سے باتیں سمیت چند کتابوں کا پی ڈی ایف دینے کی استدعا کی۔ یہ چھ بجے سے کچھ قبل کا عمل تھا۔ میں اس وقت ایک ادارے کے لیے پروپوزل لکھنے والی تھی۔ لیپ ٹاپ کی بیٹری نے جواب دے دیا۔ میں نے جونہی چارجر جوڑا، عین اسی وقت بجلی چلی گئی۔ (آج کل لوڈ شیڈنگ کا وقت چھ بجے ہے۔

_

لیپ ٹاپ ایک جانب کھسکا کر وقت گزاری کا سامان سوچنے لگی۔ تبھی حصار کی درخواست یاد آ گئی۔ موبائل اٹھایا اور سیدھی گوگل چاچا کے دوارے پہنچی۔ تین عدد ناول باریاب کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ باقی ناول مل کر نہ دیئے۔ ان میں ترتیب کے لحاظ سے پہلا ناول تھا بستی۔ سوچا تھا اگر اس تحریر پر دل نہ ٹُھکا تو کوئی دوسری پڑھ لوں گی۔ تاہم اس کی پہلی سطروں نے ہی اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی۔ جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے۔

دیکھئے کیا عمدہ لفاظی ہے۔ الفاظ کا کتنا خوبصورت تال میل ہے۔ باتی کے جلو میں آگے بڑھی تو ذاکر یعنی ہیرو کے سامنے ہابیل اور قابیل کا قصہ بیان ہو رہا تھا۔ اماں بی اور ابا جان کی باتیں تھیں۔ بھگوان اور رحمان کی تفریق تھی۔ بھگت جی کی تشریکات اور ابا جان یعنی مولانا صاحب کی احادیث کی تشریحات تھیں۔ ابا جان کو مسجد میں بجلی لگوانا اور عَلم کو تاشوں کے ساتھ نکالنا بدعت لگتا تھا۔ لیکن دیکھیے آج ہم ان گنت بدعتوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ احساس بڑی صفت ہے دوستو، جو اب عنقا ہو چلی ہے۔

_

بستی ناول مصنف کے ناسٹلجیا سے مرسوم رہا۔ کہانی چھکا چھک چلتی رہی۔ سفر جاری رہا اور میں اس ناول کی روانی کے ساتھ بہتی رہی۔ کہیں کہیں ہلکی ہلکی ہیجان خیزی سے دامن بچا کر ادھر ادھر بھی ہوتی رہی۔ لیکن ذرا بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔

اگر آپ زمانے کی کشاکش سے دور حسرت و یاس، امید و نومیدی کے پنڈولم میں جھولنا چاہتے ہیں تو انتظار حسین کے ناول بستی کا نام ہی کافی ہے۔ جہاں ایک روپ نگر تھا، ایک ویاس پور تھا اور ایک میرٹھ تھا… پھر دلی تھا۔

_

آگے پاکستان میں واہگہ تھا اور پھر لاہور تھا۔ روپ نگر میں ایک وسنتی تھی اور ایک صابرہ عرف سبو تھی۔ اس کے بعد کئی کنیہائیں آتی اور جاتی رہیں۔ بستی میں ایک سریندر تھا، جو ایک جاں نثار دوست تھا۔ آخر میں جب مصنف اور وہ دونوں اپنے اپنے علاقوں کی جانب مڑے، تو تقسیم کا ہولناک نقشہ قاری کی نظروں میں واضح ہو گیا۔ یہی سریندر بعد میں صابرہ کے بارے میں اطلاعات کا ذریعہ بنا۔ آپ پوچھیں گے کیا سبو سے ذاکر کا ملن ہوا؟

یہ جاننے کے لیے بستی پڑھیے۔ اب سب کچھ ہم تو ناہیں بتائے دیں گے۔

پاکستان کا احوال شروع ہوا۔ علم ہوا کیسے بادشاہ فقیر ہوئے اور فقیر بادشاہ۔ وہی جنگ کا نقشہ، پھر سقوطِ ڈھاکہ کا کرب، جو آپ بستی پڑھ کر محسوس کر سکتے ہیں۔

اور ہاں بستی میں سلامت اور اجمل بھی تو تھے، جن کی روح انقلابی تھی۔ پر بعد میں وہ توبہ تائب ہو گئے۔ سلامت کے والد خواجہ صاحب تھے، جو دوسرے بیٹے کرامت کی کھوج میں تھے۔ وہ ڈھاکہ جا کر لاپتہ ہو گیا تھا۔

_

ایک افضال تھا جو اچھے لوگوں کی فہرست بناتا رہتا تھا۔ وہ خوبصورت پاکستان کے خواب دیکھتا تھا۔ جس نے ایک مربعہ زمین پر گلاب اگانے تھے۔ پھر نظام کے خلاف بولنے والا زوار تھا جو بالآخر اسی نظام کا حصہ بن گیا۔ ایک سفید سر والا آدمی تھا، جس کے بال پاکستان ہجرت کرتے وقت ایک دن میں سفید ہو گئے تھے۔ سب سے بڑھ کر بستی میں ذاکر کی امی تھیں۔ ان کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ ہندوستان والے گھر کی چابیاں گم نہ ہو جائیں۔ دمِ آخر جب ابا جان نے چابیاں ذاکر کے حوالے کیں تو انہیں بھی یہی تشویش لاحق تھی کہیں چابیاں زنگ آلود نہ ہو گئی ہوں۔

بستی میں فلسفے کا تڑکا بھی خوب رہا۔

ساگر کا ندیوں کے پانی سے۔۔۔

ہے راجہ، نو چیزوں کا نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا؟

اگنی کا ایندھن سے۔۔۔

ناری کا بھوگ سے۔۔۔

راجہ کا راج پاٹ سے۔۔۔

دھنوان کا دھن دولت سے۔۔۔

ودوان کا ودیا سے۔۔۔

مورکھ کا مورنا سے۔۔۔

اتیاچاری کا اتیاچار سے۔

_

کچھ نپا تلا گیان دھیان۔۔۔

ہے منی مہاراج میں کیسے چلوں؟

سوریہ کے اجالے میں چل۔

سوریہ جب ڈوب جائے پھر؟

پھر تو چندر ماں کے اجالے میں چل۔

چندر ماں ڈوب جائے، پھر؟

پھر تو دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔

دیا بجھ جائے، پھر؟

پھر تو آتما کا دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔

عروج کی یہی تو خرابی ہے۔ اس عالم میں یہ گمان ہی نہیں گزرتا کہ اس عروج کو زوال بھی ہو سکتا ہے۔ اور جب زوال شروع ہوتا ہے تو اسے بیچ میں روکا نہیں جا سکتا۔ زوال اپنی انتہا تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔

ابا جان نے ذاکر کو چابیاں دیتے ہوئے کہا تھا، میں نے انہیں زنگ نہیں لگنے دیا۔ اب ان کو بچانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ بہت معنی خیز تھا۔ اگر آپ بستی ناول پڑھنے کا مشورہ مانگیں گے تو میرا جواب ہو گا، ہمبے۔

فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ جدوں وچھڑن یار دلاں دے

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *