معاشرتی استحصال، زمینداروں وڈیروں کے مظالم کی داستانیں، غربت اور امارت کی مختلف دنیا یہ سب ہے جانگلوس۔ سننے میں ایسا لگتا ہے جیسے آج کل کے دور کی بات ہو۔ بد قسمتی سے غریب کا جو حال تھا، سو اب بھی ہے۔ انصاف ناپید کل بھی تھا، اب بھی ہے۔ جان مال عزت کا تحفظ کل بھی نہیں تھا، اور آج بھی وہی حال ہے۔ حالاں کہ یہ ناول دہائیاں پہلے لکھا گیا تھا۔ جب بھی پاکستان کی تاریخ کے متعلق کچھ پڑھتی ہوں اس بات کا دکھ سوا ہو جاتا ہے کہ یہاں بہتری نہیں آ رہی۔ سب ویسا کا ویسا ہی ہے اور خدا معلوم کبھی ٹھیک بھی ہو گا کہ نہیں۔
جانگلوس کے دو مرکزی کردار ہیں، لالی اور رحیم داد۔ دونوں جیل سے مفرور ہیں۔ یہ ناول تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں کہانی لالی کے کردار کے ذریعے چلتی ہے۔ بہت سے کردار لالی سے ملتے ہیں اور ان کی اپنے انفرادی کہانیاں چلتی رہتی ہیں۔ ضخیم جلد ہونے کے باوجود بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ ہر صفحہ پر ایک نیا کردار ایک نئی کہانی ملتی ہے جو قاری کی دلچسپی برقرار رکھتی ہے۔
~
دوسری جلد میں کہانی کو آگے بڑھانے کا کام رحیم داد کا کردار کرتا ہے۔ اس جلد میں قیامِ پاکستان کے بعد مہاجر قوم کے ساتھ ہوئے ظلم کا قصہ زیادہ ہے۔ ایک ہی بات نام بدل بدل کر دہرائی گئی ہے جو غیر ضروری ہے اور ناول کو طویل کرنے کا بہانہ ذیادہ ہے۔ مگر اس جلد میں زمینداری نظام کی پیچیدگیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کی مشکلات، ان پر مظالم کی داستانیں رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان کے بڑے جاگیر داروں کا نظام اور سلطنت کے جبر کی عکاسی کی گئی ہے۔ تیسری جلد میں بھی یہی تسلسل برقرار ہے۔ شروعات میں لالی کا کردار بہت جاندار تھا مگر دوسری اور تیسری جلد میں رحیم داد کا کردار ذیادہ رہا۔ مجھے ذاتی طور پر لالی کا کردار پسند آیا۔
انداز تحریر جاندار ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ یہاں زیادہ کچھ بدلا نہیں۔ جو دہشت انگیز واقعات ناول میں بیان کئے گئے ہیں، وہ ہم اب بھی آئے دن سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ سو یہ ایک حقیقت پر مبنی تحریر ہے جو بھیانک کڑوا سچ ہے اور جس کا انجام دکھ بھرا ہے۔ میری ذاتی رائے میں جانگلوس دو جلدوں میں بخوبی مکمل ہو سکتا تھا اور شاید زیادہ دلچسپی برقرار رکھ پاتا۔ اس ناول کو ضرور پڑھیے اگر آپ قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک کے حالات، خاص طور سے زر اور زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں۔