Home » Book & Literature Review » جدوں وِچھڑن یار دِلاں دے از نایاب جیلانی

جدوں وِچھڑن یار دِلاں دے از نایاب جیلانی

جدوں وچھڑن یار دلاں دے

تبصرہ

جدوں وچھڑن یار دلاں دے

نایاب جیلانی کا پکاؤ ناول

Follow
User Rating: 2.82 ( 2 votes)

جدوں وچھڑن یار دلاں دے از نایاب جیلانی

تبصرہ از فہمیدہ فرید خان

ماہنامہ پاکیزہ جولائی ۲۰۲۲ء

کچھ عرصہ سے دماغ عجیب گھن چکر بنا ہوا تھا۔ اس پر آنکھوں کے ڈاکٹر نے اسکرین سے ربط کم سے کم رکھنے کا مشورہ دے کر دہلا دیا۔ عینک کا نمبر مزید گر گیا تھا۔ اس دوران پڑھنا لکھنا مکمل موقوف رہا۔ مابدولت دو دن پریشان رہ کر تیسرے دن اپنی ازلی ”دفع مارو“ پالیسی پر گامزن ہو گئے۔ وہی سوچ کہ جو ہونا ہو گا، ہو جائے گا اور واپس معمول پر۔ آج کل آنلائن جاب سرچنگ کے ساتھ پڑھنے کا کھاتہ بھی کھول لیا گیا ہے۔

رات کو آبان نے نایاب جیلانی کے ناول پر پوسٹ کی تو اسی ناول پر ہاتھ صاف کرنے کا سوچا۔ ناول پڑھنا شروع کیا تو مجھے نیند آ گئی۔ ناول کی وجہ سے نہیں بلکہ کل احمد (بھانجا) کی دیکھ بھال کر کے تھک گئی تھی۔ دیکھ بھال سے زیادہ میں اس کے مسلسل رونے سے پریشان ہوتی ہوں۔ خیر باقی ناول تھوڑی دیر پہلے پڑھا۔

نایاب جیلانی اچھا لکھتی ہیں اور مجھے ان کا لکھا پسند بھی آتا ہے۔ اسی لیے میں نے فوراً یہ پنجابی نام والا اردو ناول پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

_

جدوں وِچھڑن یار دِلاں دے کی لفاظی بہت اچھی تھی۔ مرکزی خیال بھی اچھا تھا۔ پڑھتے ہوئے مزہ بھی آیا لیکن کچھ باتوں پر بہت جھنجھلاہٹ ہوئی۔

ہر کردار سوچتا بہت تھا اور وہ بھی با آوازِ بلند۔ وہ خود کلامی میں اتنا محو ہو جاتا تھا کہ متعلقہ فرد سب سن لیتا تھا لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔ باقی معاملات جوں کے توں تھے۔ یعنی ہیرو اپنے خیالات سے دستبردار ہونے کو تیار تھا نہ ہیروئین۔

سلطان ہیرو تھا۔ لیکن اس کے مکالمے انتہائی کم تھے، وہ بھی ہیروئین کے ساتھ نہیں بلکہ منگیتر کے ساتھ۔۔۔ اس سے زیادہ تو سعد (سائیڈ ہیرو) کا کردار تھا۔حنادے اور سدوری (اس سے مجھے ہمدرد کی سدوری، کھانسی کا شربت ہی یاد آیا۔۔۔ معذرت) ایک دوسرے کے خیالات پڑھ لیتی تھیں۔ یہی حال سبیل کا تھا بلکہ ہر ایک کردار کا۔

سب کردار نفسیات اور ٹیلی پیتھی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ انہیں پہلے سے پتہ چل جاتا تھا کہ اگلا کیا کہنے جا رہا ہے۔

کہانی بھاگ رہی تھی لیکن کہانی وہیں تھی۔ یہ میں کیوں کہہ رہی ہوں، یہ پڑھنے والا ہی سمجھ سکتا ہے۔۔۔ آپ اس کو لمبی چھوڑ قسم کی کہانی کہہ سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ حصہ آپا کمال کے خاندان کا تھا۔ سب سے زیادہ زورِ بیان طوائفوں کے رکھ رکھاؤ پر صرف کیا گیا۔

بنیادی طور پر ہر کردار میں خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھیں، سوائے جھومر کے۔

جلدی جلدی لپیٹ کر اچانک سب اچھا کرنا بھی ایک عجیب گورکھ دھندہ تھا۔

آخری بات اردو ناول کا ٹھیٹھ پنجابی نام ”جدوں وِچھڑن یار دِلاں دے“ کچھ جچا نہیں۔ کہانی اچھا پاس ٹائم بن سکتی ہے اگر آپ ”سب اچھا ہے“ پڑھنا چاہتے ہیں۔

بتاریخ ۲۱/۰۷/۲۰۲۲

فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ شاہکار از رفعت سراج

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *