Home » Book & Literature Review » خالی آسمان – سائرہ رضا – اردو تبصرہ

خالی آسمان – سائرہ رضا – اردو تبصرہ

خالی آسمان

تبصرۂ کتب

خالی آسمان از سائرہ رضا

زینب ادریس ڈار کا تبصرہ

Follow
User Rating: 4.04 ( 2 votes)

خالی آسمان
قلم کار: سائرہ رضا
تبصرہ نگار: زینب ادریس ڈار

سائرہ رضا کا نام ڈائجسٹ پڑھنے والے حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کا شمار ان قلم کاروں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے پچھلے کافی برسوں میں نہایت مستقل مزاجی اور تسلسل کے ساتھ لکھتے ہوئے ڈائجسٹ کی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام بنایا ہے۔ سائرہ کے قلم میں روانی ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔ ان کے ہاں موضوعات اور الفاظ کا تنوع ہے۔ ان کی تحریر ہمیشہ بہت دلچسپ اور متاثر کن محسوس ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر سائرہ کی اس خصوصیت کی بڑی مداح ہوں۔ وہ جب بھی قلم اٹھاتی ہیں کہانی اور موضوع کے اعتبار سے کچھ اچھوتا اور منفرد پیش کرتی ہیں۔ ان کی تحریر سے پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرے خیال میں یہ ان کی تحاریر کی پسندیدگی اور کامیابی کی ایک اہم وجہ ہے۔

۔

بنیادی طور پر سائرہ کا شمار ڈائجسٹی ادب کے ان قلم کاروں میں کیا جاتا ہے جو کسی بھی مشکل موضوع پر بے دھڑک اور روانی سے لکھ سکتی ہیں۔ ان کا قلم مشکل موضوعات یا کرداروں کو لکھتے ہوئے صرف چلتا ہی نہیں بلکہ دوڑتا ہے۔ جون ۲۰۱۵ء کے شعاع ڈائجسٹ میں شائع ہونے والا سائرہ رضا کا مکمل ناول خالی آسمان بھی اپنے منفرد اور اچھوتے موضوع کے اعتبار سے ایک دلچسپ اور متاثر کن تحریر تھی۔ اس ناول نے مجھے ایک طویل عرصے بعد ڈائجسٹ کی کسی کہانی پر اپنی مکمل رائے کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا۔

ایک عام دیہاتی پسِ منظر میں لکھے گئے اس ناول کا مرکزی خیال نہایت ہی اچھوتا تھا۔ مرکزی کردار بہت دلچسپ اور منفرد تھا جس پر آج تک شاید کسی اور لکھاری نے لکھنے کی جرات نہیں کی۔۔۔ یا اگر لکھا بھی تو میری نظروں سے کہانی اور کردار اب تک اوجھل ہیں۔ خالی آسمان کا صرف ایک ہی مرکزی کردار ہے۔۔۔ اوہ وہ ہے بے جی اور باؤ جی کا منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہونے والا لاڈلا بیٹا۔ باقی کردار اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

۔

کہانی آغاز سے انجام تک اسی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ مگر در حقیقت یہ ایک ماں کی اپنے بیٹے کے ساتھ بے لوث محبت کی داستان ہے۔ ماں بے جی اور بیٹا محمد طاہر پرویز عرف تارے۔۔۔ ساتھ ہی خالی آسمان تین بھائیوں کی انسیت اور لگاؤ کی کہانی بھی ہے۔ سب سے چھوٹا بھائی طارق، منجھلا طالب اور سب سے بڑا بھائی محمد طاہر پرویز یعنی تارے۔

آپ اسے ایک باپ اور اس کی اولاد کے درمیان خاص قسم کے تعلق کی کہانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ باؤ جی اور بیٹا یعنی تارے۔۔۔ اس کے علاوہ طالب کی بیوی عابدہ اور طارق کی بیوی معصومہ بھی اس کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ وہاں بھی تارے کا کردار ان کے آس پاس ہی موجود نظر آتا ہے۔

۔

خالی آسمان کا آغاز بے جی اور معصومہ کی ایک پر اسرار سی کشمکش سے ہوتا ہے۔ طارق اس جگہ ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے ملتا ہے۔ پھر یہ کشمکش ماضی اور حال کے حالات واقعات کو لے کر دھیرے دھیرے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بالآخر یہ رسہ کشی کہانی کو منطقی انجام تک پہنچا دیتی ہے۔ مگر پوری کہانی میں ایک موڑ دلچسپ، اہم اور چونکا دینے والا ہوتا ہے۔ بے جی اور باؤ جی کے ہاں شادی کے سات برس بعد بہت منتوں مرادوں اور دعاؤں کے بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام بہت ہی محبت سے محمد طاہر پرویز عرف تارے رکھا جاتا ہے۔ بے جی کی مامتا کے آسمان پر نمودار ہونے والا پہلا تارہ۔ مگر معاشرے میں وہ ایک شاہ دولے کا چوہا کہلاتا ہے۔ یہیں سے اصل کہانی کا آغاز بھی ہوتا ہے۔

۔

آگے حالات و واقعات پرت در پرت کھلتے چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تارے جیسی وضع کے بچے کی پیدائش کے بعد بیشتر گھر والوں کے دلوں میں اُس کی قبولیت کی گنجائش تقریباً ناپید محسوس ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے لیے اس معاشرے میں زندہ رہنے کی صرف دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو ان سے جان چھڑا کر انہیں ہمیشہ کے لیے مزارات کی نذر کر دیتے ہیں۔ یا پھر بعض دیہی علاقوں میں ضعیف الاعتقادی کی بدولت ایسے افراد کو سائیں لوک سمجھ کر ان سے منت و مرادوں ، دعاؤں اور عقیدت کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ وہ تمام عمر ایک خاص رنگ کے چوغے میں ملبوس اللہ والا بن کر زندگی گزار دیتا ہے۔

اس کہانی کا اسلوب خاصا منفرد تھا۔ مصنفہ نے ایسے کردار کو مزارات اور منت و مرادوں کے روایتی ماحول سے نکال کر گھریلو زندگی کے نشیب و فراز میں ڈھال کر عام انداز میں چلتا پھرتا دکھانے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک یہ ایک کامیاب کوشش تھی۔ تقریباً تمام کہانی ہی بہت خوبصورتی سے لکھی گئی ہے۔ کہیں کوئی جھول ڈھونڈے سے بھی محسوس نہیں ہوا۔ کرداروں کی بنت، حالات و واقعات، منظر نگاری، الفاظ کا چناؤ اور بے ساختہ جملے انگوٹھی میں نگینے کی مانند تھے۔

۔

تارے کا کردار خاصی پختگی اور منفرد انداز سے لکھا گیا۔ یقیناً مصنفہ کا مشاہدہ ایسے لوگوں کے بارے میں بہت ہی عمیق رہا ہو گا۔ اس کردار کی نقل و حرکت، نشست و برخاست کا انداز تفصیلی اور رواں انداز میں پڑھنے کو ملا۔تارے کے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر پختہ عمر تک کے سہن، عادات و اطوار اور روز مرہ زندگی کے معمولات، گھر والوں اور گاؤں والوں کے ساتھ اس کا رویہ بہت جاندار تھا۔ جسے پڑھتے ہوئے کبھی ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی تھی اور کبھی آنکھیں نم ہوتی رہیں۔ خصوصاً وہ تمام لمحات جب تارے اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ رہتا اور پلتا بڑھتا ہے۔

گھر والے اس کی سب تخریب کاریاں، شرارتیں اور ضدیں برداشت کرتے ہیں۔ اسے گھر کا ایک عام فرد تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ محبت اور اپنائیت کا سلوک رکھتے ہیں۔ البتہ گاؤں والوں کو اسے یوں تسلیم کرنے میں کچھ وقت اور دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آخر کار ایک چھوٹے سے واقعہ کے بعد انہوں نے اسے قبول کر ہی لیا۔

۔

بہت سی جگہوں پر پڑھتے ہوئے ایک بات شدت سے محسوس ہوتی رہی۔ یہ سب کرنا اگر اتنا مشکل نہیں ہے تو اسے آسان بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ تارے کے ساتھ بے جی کا کردار بھی جڑا ہوا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تارے اور بے جی اس کہانی میں ایک جان دو قالب تھے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ بے جی کا کردار بہت ہی خاص تھا۔ میں انہیں معاشرے کی دوسری ماؤں سے زیادہ خصوصیت کا حامل کہوں گی۔ بلکہ بے جی کا کردار ماورائی اوصاف لیے ہوئے تھا۔

۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مائیں سبھی بہت صبر اور حوصلے والی ہوا کرتی ہیں۔ مگر بے جی جیسی صابر اور حوصلے والی ماں بننے کے لیے تارے جیسا بیٹا پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس سے پہلے نہ تو اس ماں کی ہمت کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر بیتے پہلے لمحے کو۔۔۔ جب اس پر آشکار ہوتا ہے کہ اس کے ہاں شادی کے سات طویل اور صبر آزما برسوں کے بعد پیدا ہونے والا بچہ ادھورا ہے۔ وہ معاشرے کے لیے شاہ دولے کا چوہا ہے، ایک عام انسان نہیں۔ یہ کوئی نہیں جان سکتا ہے کہ ایسی ماں صبر اور ہمت کے کون سے درجے پر فائز ہے۔ وہ معذور اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال بغیر کسی صلے اور انعام کے تمام عمر کرتی رہی۔ اس کے لبوں سے اف کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔

۔

باؤ جی کا کردار البتہ روایتی ہی تھا۔ کچھ سختی اور کچھ نرمی لیے ہوئے مگر تارے کے ساتھ ان کے کچھ مناظر نے ہونٹوں پر مسکراہٹ ضرور بکھیر دی۔ پھر طالب اور طارق تھے۔ ان میں سے ایک کے ساتھ تارے کی خوب دوستی اور دوسرے کے ساتھ اللہ واسطے کا بیر تھا۔

اس کے علاوہ خالی آسمان کی کہانی اپنے ساتھ مزید دو اہم کرداروں عابدہ اور معصومہ کو بھی لے کر آگے بڑھتی رہی۔ ان دونوں کرداروں کا تارے کے ساتھ رویہ اور برتا جانے والا امتیازی سلوک اسے دو مختلف رنگوں میں منقسم کر کے منطقی انجام تک لے گیا۔ یہ دونوں کردار بہت اہم اور ایک ہی سکے کے دو رخ کی مانند تھے۔ آپ ان میں سے ایک کو تضادات سے بھرے معاشرتی رویوں کا عکس بھی کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ دوسرا کردار اس معاشرے میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر وہ اس معاشرے کا حصہ ضرور ہے۔ ایک کردار انسانیت کی اونچی مسند پر براجمان نظر آیا۔ دوسرا کردار تلخی، خود پسندی اور حسد لیے ہوئے بدصورت معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا محسوس ہوا۔

۔

پھر اسی کردار کی نفرت، خود پسندی، نا سمجھی اور خود ساختہ انتقام کی آگ نے بے جی کی مامتا کے آسمان کو ہمیشہ کے لیے خالی کر دیا۔ اس کے بعد پچھتاؤں اور کشمکش کا ایک سلسلہ تھا جس نے کہانی کو ایک ڈرامائی موڑ پر لے جا کر اختتام پذیر کیا۔

مجموعی طور پر خالی آسمان سائرہ رضا کے قلمی سفر کی ایک یادگار تحریر تھی۔ یہ عام سے گاؤں کے پس منظر اور ماحول میں لکھی گئی صرف ایک گھرانے کی کہانی تھی۔ مگر مجھے یہ تحریر بہت سے گھروں کی نمائندگی کرتی محسوس ہوئی۔ جہاں تارے یا کسی بھی طرح کے پیدائشی معذور افراد موجود ہیں۔ ان کے گھر والے ماحول اور معاشرے سے نبرد آزما ہوتے ہوئے انہیں ایک عام طرز زندگی دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ امید ہے مصنفہ آنے والے وقت میں بھی خاص اور اچھوتے موضوعات کو اپنی تحریروں کا حصہ بناتی رہیں گی۔

سدرہ جاوید کا تبصرہ بھی پڑھیں امرتا پریتم کے افسانے

About Zainab

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *