Home » Book & Literature Review » خدا کی بستی | شوکت صدیقی | اُردو تبصرہ

خدا کی بستی | شوکت صدیقی | اُردو تبصرہ

تبصرۂ کتب

خدا کی بستی | شوکت صدیقی

خدا کی بستی پڑھ کر آپ پر پسے ہوئے طبقے کی مشکلات اور حالات و واقعات کا گہرا اثر ہو گا۔ اس کے کردار آپ کے حافظے میں بہت دیر تک ژندہ رہیں گے۔

Follow
User Rating: 2.3 ( 1 votes)

خدا کی بستی معاشرے کے سیاہ باب نقل کرتی ایک تحریر ہے جس میں نا انصافی، سماجی اور معاشی استحصال، امیری غریبی کی تفریق کو بہت پر اثر انداز میں قلمبند کیا گیا ہے۔ حقیقت بلاشبہ بہت تلخ ہوتی ہے۔ اس میں ”سب ہنسی خوشی رہنے لگے“ جیسے معاملات بہت کم ہوتے ہیں۔ انسان سسکتا ہوا ہی اس منوں مٹی تلے پہنچ جاتا ہے۔ یہاں خان صاحب کی کہی ایک بات یاد آ رہی ہے کہ صرف کہانیوں میں خوشگوار انجام ہوتا ہے۔ اصل زندگی میں مشکلات اور آزمائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر اس بات کو ذہن میں رکھ کر یہ ناول پڑھا جائے تو یہ حقیقت کے زمرے میں آتا ہے، فکشن نہیں۔


خدا کی بستی کے نوشا، راجا، شامی ایسے لڑکے جو ہمیں ہر گلی محلے پر نظر آتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ کیا ہمارے ارباب اختیار میں کوئی ان کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے؟ یہ لوگ جن کے پاس نہ کوئی آمدن کے ذرائع ہیں اور نہ ہی تعلیم کی کوئی سہولت۔ یہ بچے جو ہمارا مستقبل ہیں، بچپن سے صرف دو وقت کی روٹی کمانے اور آوارہ گردی کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں؟

سلطانہ جیسی لڑکیاں جو غربت میں پیدا ہوتی ہیں، خواب تو سہانے دیکھتی ہیں۔ مگر انہیں پورا ہوتا دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں۔ پھر وہ نیاز جیسے گدھ کے ہاتھ میں اور اس معاشرے کے گرداب میں رل جاتی ہیں۔ اسکائی لارک جیسی تنظیم جس کے لوگ اس پسماندہ طبقے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی امیروں کی خود غرضی، سیاستدانوں کے ظلم کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سلمان اور علی احمد جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک نظریہ کے تحت چلنا چاہتے ہیں۔ وہ دھن دولت سے الگ ہو کر سوچتے ہیں، کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں معاشی خوشحالی نصیب ہے۔ انہیں دو وقت کی روٹی کا مسئلہ نہیں ہے ورنہ غربت انسان کو اندھا، بہرہ اور گونگا کر دیتی ہے۔
اس سے پہلے میں نے شوکت صدیقی کا ناول جانگلوس پڑھا تھا وہ بھی اسی معاشرتی استحصال پر لکھا گیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان معاملات پر ان کی گہری نظر تھی۔ خدا کی بستی 1958ء میں شائع ہوا تھا۔ وطنِ عزیز کے حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ایک عام آدمی کے لیے اس ملک میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہ کل بھی غیر محفوظ تھا اور آج بھی ہے۔

خدا کی بستی ایک تلخ تحریر ہے۔ اسے پڑھ کر آپ پر پسے ہوئے طبقے کی مشکلات اور حالات و واقعات کا گہرا اثر ہو گا۔ یہ سب کردار آپ کے حافظے میں بہت دیر تک ژندہ رہیں گے۔

تبصرہ نگار: سدرہ جاوید

گزشتہ تبصرہ: آخر شب کے ہمسفر | قرۃ العین حیدر

About Sidra Javed

Sidra Javed is a home maker yet reading enthusiast. She loves reading different genres and likes to share her views with others, hoping this will inspire others to take up reading books. On the contrary she's interested in Calligraphy and Art too. She loves adding creativity and delicacy in food.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *