خوشگوار مگر تشنہ اختتام؟
کبھی میں کبھی تم
آخری قسط
مجھے معلوم تھا کہ آخری قسط میں ناظرین کے جذبات سے کھیلا جائے گا۔ مجھے فرحت اشتیاق پر بھروسہ تھا کہ انجام خوشگوار کریں گی۔ اس لیے میں نے اطمینان سے ایک انٹرویو دیکھا، پھر دوسرا۔۔۔ اس کے بعد جونہی تازہ ترین پر نگاہ گئی، میری ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ یوٹیوبرز نے اپنا جمعہ بازار سجایا ہوا تھا کہ ڈرامہ پر پابندی لگ گئی ہے۔ بھئی آپ لوگوں کو تینتیس توپوں کی سلامی، وہ بھی آگے رکھ کے۔۔۔ لیکن یہ چورن اب کم بِکتا ہے سو میں نے بھی توجہ نہیں دی۔
گھوم پھر کے میں جیتو پاکستان دیکھنے لگی۔۔۔ اس کا ایک کلپ دیکھا تھا جس میں ایک گلوکار نے (غالباً بلال) نے کمال گانا گایا تھا۔ اسی پروگرام سے پتہ چل گیا کہ صرف ایک ہی بڑی قسط ہی دیں گے۔ سنیما میں لگنے کا پتہ پچھلے ہفتے سے تھا۔۔۔ ڈرامے کے اختتام سے دو ہفتے قبل ہی جانے کیوں میرا سارا جوش و خروش جھاگ کی مانِند بیٹھ چکا تھا۔ شاید ڈرامہ ختم ہونے کی اداسی تھی، خوشگوار انجام کی چاہت یا ناسازیٔ طبع کا شاخسانہ۔۔۔ پھر بھی اتنا پھیکا اختتام نہیں سوچا تھا۔ تاہم میں ایک متوازن تجزیہ لکھنے کی پوری کوشش کروں گی۔
•
•
مرتضٰی انکل آخری قسط میں صرف ایک طنزیہ فقرہ کہنے آئے تھے۔ مجھے تو خیر شروع سے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے، مصطفٰی بھی ان کی جلی کٹی سننے کے بعد شرجینہ کو منانے ان کے گھر نہیں گیا۔ میرے نزدیک اس نے بالکل ٹھیک کیا۔ مرتضٰی انکل کی زبان میں اسے ضد اور انا کہتے ہوں گے لیکن مجھے یہ رویہ ٹھیک لگا۔ مصطفٰی انسان ہے، دیوتا نہیں کہ اتنے وار سہہ کر بھی ہر ایک کے لیے دل کشادہ کرتا جائے۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ دنیا بے غرضی، مروت اور رواداری جیسے انمول جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔
یہ سوال بارہا کیا جاتا رہا ہے کہ مصطفٰی نے شرجینہ نے والدین سے مدد کیوں قبول نہیں کی؟ میں نے بھی اس نکتے پر غور کیا اور مجھے اس کی منطق سمجھ آ گئی تھی۔ شادی کی دعوت پر ہی پوچھنا کہ جاب کا کیا سوچا؟ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ ان کو پتہ تھا لڑکا کیسا ہے، کیا کرتا ہے۔ پھر لٹھ لے کے پیچھے پڑ جانا، یہ کر لو اور وہ کر لو۔۔۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، مصطفٰی کی چڑ جائز تھی۔ اس نے بولا تھا نا کہ شکل سے احمق لگتا ہوں، ہوں نہیں۔۔۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ مرتضٰی انکل صرف اپنی ناک اونچی رکھنا چاہتے ہیں۔ اس پورے ڈرامے میں سسر داماد کے مابین ایک بھی خوشگوار لمحہ نہیں تھا۔
معاف کیجئے گا باپ کو صرف گفتار کا غازی نہیں ہونا چاہیئے۔ باپ مصطفٰی کا بھی غلط تھا لیکن اس نے بیٹے کو بچانے کے لیے گھر سے نکالا تھا۔ باپ رباب کا بھی مغرور تھا لیکن بیٹی کی پسند کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے باوجود اس نے بیٹی کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔
•
پھر مصطفٰی ڈان کی چال چلتا تھانے آیا اور میلہ لوٹ لیا۔ یہ سرگرمی پورے بیالیس سیکنڈ پر محیط تھی۔ ساتھ چلتے وکیل صاحب کو مت بھولیے گا، آخر انہوں نے اتنے سنگین الزامات کے باوجود عدیل کی ضمانت کروائی تھی۔ تو وہ آپ کا مسئلہ کیوں نہیں حل کروا سکتے۔
اس ڈرامے کے ملبوسات اور میک اپ پر بھی کافی محنت کی گئی تھی، ہر منظر کی مناسبت سے جھلک نظر آتی رہی۔ جیسے تھانے کے منظر میں مصطفٰی نے سفید شرٹ پہن رکھی تھی جب کہ عدیل نے سیاہ۔۔۔ پچھلی قسط میں مصطفٰی کے کپڑوں اور اس کے فلیٹ کا امتزاج ایک جیسا تھا جب کہ شرجینہ کا اپنے گھر سے ملتا جلتا تھا۔
سب باتیں ایک طرف، مصطفٰی کے لیے اصل گیم چینجر دانش صدیقی تھا۔ اس نے ناکام ٹوٹے ہوئے مصطفٰی کا ہاتھ تھاما تو چھوڑا نہیں۔ اس کی بری بھلی سن کر بھی اس کے ساتھ کھڑا رہا۔ مصطفٰی کے حالات سمجھ کر اس کی ڈھال بن گیا۔ گیم بناتے بناتے انہوں بزنس ایمپائر کھڑا کر لیا بھئی واہ۔۔۔
Such a positive and genuine character he is…
لیکن آخر تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس بزنس مین کا بیٹا تھا۔۔۔
•
میں نے بہت عرصے کوئی ڈرامہ اتنی دلجمعی سے دیکھا ہے۔ کہانی، ہدایت کاری، کاسٹ، اداکاری، ایڈیٹنگ، ملبوسات، سیٹ ڈیزائننگ، موسیقی،،،، غرض ہر چیز کے علیحدہ نمبر ہیں۔ جب شرجینہ ڈائری کا ورق لاتی ہے اور پس منظر میں مصطفٰی کی خود کلامی چلتی ہے۔ اس وقت میں مصطفٰی کے مکالموں سے زیادہ اس کے ہاتھوں کی جنبش پر غور کر رہی تھی کہ وہ اردو میں لکھ رہا تھا یا رومن میں۔۔۔ گلے لگانے والے منظر پر صائمہ بی بی بڑی خوش تھیں کیوں کہ محترمہ بے حد رومانچک واقع ہوئی ہیں۔۔۔ میرا ردِ عمل ”اچھا اچھا بس، ہو گیا“ جس پر وہ بری طرح تلملائی تھی۔ ویسے یہ عالمی ناظرین کی ڈیمانڈ تھی۔ کچھ چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
اختتام خوشگوار تو تھا مگر قدرے تشنہ تھا۔ آخری قسط میں بہت کچھ ہو سکتا تھا اور بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ اگر رونا دھونا ذرا سا مختصر کر دیا جاتا تو کئی ضروری لمحات شامل کیے جا سکتے تھے۔ آغاز سے جس طرح چھوٹی چھوٹی جزئیات پر توجہ مرکوز رکھی گئی، قسط یوں لپیٹ دینا نا خوشگوار محسوس ہوا۔ یہ تو سمجھ آ گیا کہ دونوں افتخار انکل اور شگفتہ آنٹی کے ساتھ اپنے گھر میں رہیں گے۔ نیا اپارٹمنٹ اچھا تھا لیکن اوپرایا سا لگتا تھا۔ یہاں اصلی سوال یہ ہے کہ شرجینہ کے پاس فلیٹ کی چابی کہاں سے آئی؟
•
شرجینہ جب مصطفٰی سے ملنے آئی تو رکشہ پر کیوں تھی؟ مرتضٰی انکل کی گاڑی کیوں نہیں لائی؟ کیا وہ چھپ کر آئی تھی؟ اصل دھچکا مجھے تب لگا جب مصطفٰی نے بھی اسے گھر تک چھوڑنے کی پیشکش نہیں کی۔ جب کہ پسِ منظر میں سارا وقت گاڑی نظر آتی رہی۔ اتنی سنسان جگہ شرجینہ کو رکشہ ملا کیسے؟ کوئی کراچی والا روشنی ڈال دے۔ باقی عالمی ناظرین اس بات پر خوش تھے کہ خوشگوار انجام ہو گیا۔۔۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں چاہیئے تھا۔
عدیل اب کیا کرے گا؟ اس کا تو کوئی دوست بھی نہیں۔ پیسے اس کے پاس ہیں نہیں اور سامان رباب نے پھنکوا دیا تھا۔ اس کے پاس موبائل اور لیپ ٹاپ نہیں تو بنکنگ ایپ استعمال نہیں کر سکتا۔ دستاویزات نہیں، اس لیے بنک سے پیسے بھی نہیں نکلوا سکتا۔ کیا رباب کو پتہ ہے کہ عدیل کی ضمانت ہو گئی ہے؟ اس کا ایک آدھ منظر ہونا چاہیئے تھا اور اس کے باپ کا بھی۔۔۔ ویسے اصل زندگی میں کم ہی کسی کو کیے کی سزا ملتی ہے۔ دوسری طرف سدرہ کو عدیل کے رہا ہونے کا ہی بتا دیتے بھئی۔ اس کی ہفتہ وار دعوت بنتی تھی۔
•
یہ ڈرامہ ہمیں بہت کچھ سکھا گیا ہے۔ والدین کی ذمہ داری اور میاں بیوی کے تعلقات، خاندانی معاملات۔۔۔ فہد مصطفٰی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ٹی وی سکھانے کا میڈیم نہیں ہے، انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے لیکن فہد بھائی دیکھ لیں ”کبھی میں کبھی تم“ بے شمار زندگیاں سنوار گیا ہے۔
دیگر لوگوں کی طرح مقصد ڈرامہ صرف دیکھنا نہیں ہوتا۔ میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں مشہور ترین اور اکثریت کے پسندیدہ ڈرامے ایک دو قسطوں سے آگے نہیں دیکھ پائی تھی۔ اس ڈرامہ کے کئی چھوٹے موٹے جھول اس لیے نظر انداز کیے کہ کوئی بہت بڑا بھنڈ نہیں تھا۔ ویسے بھی ڈرامہ ایک حد تک ہی حقیقت کے قریب ہو سکتا ہے۔ جب انسانوں میں اتنی کمیاں ہوتی ہیں تو ڈرامہ بھی اسی مخلوق کا بنایا ہوتا ہے۔
ابھی میں نے تبصرہ لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا کہ عاقب نے بلاگ پر لگانے کے لیے تصویر بھی بھیج دی۔ بھئی واہ۔۔۔!!! بہت شکریہ بچے، جیتے رہو۔
#KabhiMainKabhiTum
#KMKT
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
نومبر ۶، ۲۰۲۴ء بروزِ بدھ وار
گزشتہ تبصرہ بھی پڑھیئے۔