رضیہ سلطانہ
ہجری سال 633 میں التمش کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا رکن الدین فیروز شاہ تخت نشین ہوا۔ مگر وہ تاج کا اہل ثابت نہیں ہو سکا۔ صرف چھ ماہ بعد ملک میں بغاوت کے بعد امراء کی مدد سے سلطان التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ تخت پر جلوہ افروز ہوئی۔
سلطانہ میں وہ سب خصوصیات موجود تھیں جو ایک کامیاب حکمران میں ہونی چاہئیں۔ تاہم وہ ایک خاص سوچ کے حامل لوگوں کی نظروں میں صنفِ کے نازک ہونے کی وجہ سے معتوب ٹھہری۔ التمش کے دورِ حکومت ہی سے رضیہ سلطانہ امورِ سلطنت میں گہری دلچسپی لیتی تھی۔ التمش کو اس پر بہت اعتماد تھا۔ اسی بناء پر وہ اس کی دخل اندازی کو ناپسند نہیں کرتا تھا۔
گوالیار کی فتح کے بعد سلطان التمش نے اپنے خاص امراء کی موجودگی میں اسے اپنا جانشیں مقرر کیا تھا۔ امراء کے اس سوال پر کہ بیٹوں کی موجودگی میں اس نے بیٹی کو کیوں جانشین نامزد کیا؟ التمش کا جواب تھا، میں اپنے بیٹوں کے چال چلن سے واقف ہوں۔ وہ مکمل طور پر مے خواری میں مگن ہیں۔ اس لیے میں رضیہ کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ہوں۔ رضیہ عقل اور فہم میں اپنے بھائیوں سے کہیں بہتر ہے۔
رضیہ سلطانہ نے تخت نشین ہونے کہ بعد زنانہ لباس ترک کر کے مردانہ لباس پہننا شروع کر دیا۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر دربار منعقد کر کے امورِ سلطنت سر انجام دیتی۔ رضیہ سلطانہ غیر شادی شدہ تھی۔ یکایک ملکہ کی نوازشات ایک حبشی غلام جمال الدین یاقوت پر بڑھنے لگیں۔ یاقوت ترقی کرتا ہوا امیر الامراء کے عہدے تک جا پہنچا تھا۔ ملکہ اور جمال الدین کی بے تکلفی اس حد تک تھی کہ جمال الدین ملکہ کو اٹھا کر گھوڑے پر سوار کرواتا تھا۔ اس صورت حال سے بہت سے امراء ناراض اور حسد میں مبتلا ہو گئے۔ یہی امر آگے چل کر ملکہ کی حکومت اور خود ملکہ کی زندگی کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔
ملکہ نے بھٹنڈہ کے حاکم ملک التونیہ سے شادی کر کے اپنے خلاف پنپتی بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔ اس جنگ میں ملکہ کو شکست ہوئی تھی۔ وہ کچھ عرصہ ملک التونیہ کی قید میں بھی رہی تھی۔ 637 ہجری میں ملک بلبن سے شکست کھانے کے بعد دونوں میاں بیوی کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا۔ یوں رضیہ سلطانہ کا ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت اس کے قتل پر منتج ہوا۔
عنانِ حکومت سنبھالتے ہی رضیہ سلطانہ کو بہت سے بااثر امراء کی طرف سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ اودھ کے جاگیردار ملک نصیر الدین کو جب علم ہوا تو وہ ملکہ کی مدد کے لیے آگے بڑھا۔ باغی امراء نے اسے قید کر کے اس کے لشکر کو منتشر کر دیا۔ ملکہ نے بہت دانش مندی سے اس بغاوت کا خاتمہ کیا۔ اکثر باغی مارے گئے یا فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بغاوت سے گلو خلاصی پا کر رضیہ سلطانہ نے مملکت کے دیگر امور کی جانب توجہ دی۔ کئی اہم عہدوں پر قابل اعتماد اور مشہور امیروں کا تقرر کیا۔
قطب الدین کی قیادت میں ایک لشکر رتھنبور کی فتح کے لیے بھیجا۔ اس نے وہاں سے ان مسلمان قیدیوں کا آزاد کروایا جو التمش کی وفات کے زمانے سے وہاں قید تھے۔
ہجری 636 سال میں لاہور کے حاکم اعزاز الدین نے عَلم بغاوت بلند کر دیا۔ ملکہ نے اس پر لشکر کشی کی مگر اعزاز الدین نے جنگ کی بجائے اطاعت کرنا مناسب سمجھا۔ ملکہ نے خوش ہو کر اسے ملتان کی حکومت بھی سونپ دی۔
بھٹنڈہ کے حاکم ملک التونیہ ترکان چہل گانی تھا۔ یعنی وہ التمش کے ان چالیس غلاموں میں سے ایک تھا جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس نے یاقوت حبشی کے اثر و رسوخ اور اختیارات سے تنگ آ کر ملکہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ملکہ لشکر لے کر اس بغاوت کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئی۔ لیکن راستے میں ترک امراء نے بغاوت کر دی اور لشکر پر شب خون مارا۔ اس کے نتیجے میں یاقوت حبشی مارا گیا اور ملکہ کو بھتنڈہ میں قید کر دیا گیا۔ ترک امراء نے سلطان التمش کے بیٹے معز الدین بہرام شاہ کو دہلی کے تخت پر بٹھا دیا۔
بھٹنڈہ میں قید کے دوران ملکہ نے وہاں کے حاکم ملک التونیہ سے نکاح کر لیا۔ آپس میں مشورے کے بعد انہوں نے آس پاس کے گکھڑوں، جاٹوں اور دیگر زمین داروں کے ساتھ مل کر ایک لشکر تیار کر کیا اور دہلی پر حملہ کر دیا۔ معز الدین بہرام شاہ نے اپنا لشکر اعزاز الدین بلبن کی سربراہی میں روانہ کیا جو التمش کا داماد تھا۔ ایک زبردست معرکے کے بعد رضیہ سلطانہ کو شکستِ فاش ہوئی۔ دونوں میاں بیوی نے بھاگ کر بھٹنڈہ میں پناہ لی۔
اس شکست کے بعد رضیہ سلطانہ کی بے چین فطرت نے اسے سکون سے نہ بیٹھنے دیا۔ وہ اپنا لشکر از سرِ نو منظم کر کے ایک بار پھر دہلی پر حملہ آور ہوئی۔ اس بار بھی بہرام شاہ نے اعزاز الدین کی سربراہی میں لشکر روانہ کیا۔ 4 ربیع الاول 637 (24 اکتوبر 1239ء) کو کیتھل کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ ایک بار پھر رضیہ کو شکست ہوئی۔ دونوں میاں بیوی میدان جنگ سے بھاگ نکلے لیکن مقامی زمین داروں نے انہیں گرفتار کر لیا۔
ان دونوں کو یا تو ان زمین داروں نے قتل کر دیا تھا یا پھر بہرام شاہ کے حوالے کر دیا۔ جس نے بعد ازاں ان کو قتل کر دیا۔ رضیہ سلطانہ اور ملک التونیہ کے قتل کا واقعہ 14 نومبر 1239ء کا ہے۔
ابنِ بطوطہ رضیہ سلطانہ کے قتل کی حکایت بیان کرتا ہے۔ شکست پا کر جب وہ بھاگی تو بھوک کے مارے بہت خستہ حال ہو گئی۔ اس نے ایک کسان کو کھیتی کرتے دیکھا تو اس سے کھانے کو کچھ مانگا۔ کسان نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیا جسے کھا کر وہ سو گئی۔ وہ مردانہ لباس میں تھی۔ جب کسان کی نظر سوتے میں اس پر پڑی تو کپڑوں کے نیچے ایک مرصع قبا نظر آئی۔ یہ جاننے کے بعد کہ یہ عورت ہے، کسان نے اسے قتل کر دیا۔ اس کا لباس اتار کر اسے کھیت میں دفنا دیا۔ پھر ملکہ کا گھوڑا لے کر اس کے کپڑے بیچنے بازار چلا گیا۔
بازار والوں نے اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کپڑے خریدنے سے انکار کر دیا اور کوتوالِ شہر کو بھی خبر دی۔ پوچھ گچھ پر اس نے رضیہ کے قتل کا واقعہ بیان کر دیا۔ پھر وہ سب کو اس کے مدفن پر لے گیا۔ انہوں نے لاش نکال کر غسل دیا اور کفن پہنا کر دوبارہ دفن کیا۔ بعد میں اس کے مدفن پر ایک گنبد بنا دیا گیا۔ اب بھی لوگ رضیہ سلطانہ کی قبر کو متبرک جان کر زیارت کرتے ہیں۔ یہ جگہ دریائے جمنا کے کنارے شہر سے ایک فرسنگ کے فاصلے پر ہے۔ ایک فرسنگ تقریباً چھ کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں رضیہ سلطانہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب حبشی غلام یاقوت کا حد سے زیادہ با اختیار ہونا تھا۔
ایک ادنٰی غلام کا ہندوستان کی ملکہ کے ساتھ خاص تعلقات چہ معنی دارد؟
یاقوت دہلی کا امیر الامراء کیسے بن گیا؟
یہی سب سے اہم وجہ تھی جو رضیہ سلطانہ کے زوال کا باعث بنی۔
Foг the reason tһɑt the admin of this web рage is working, no uncertainty very sօon it wіll be renowned, due to its featue contents.
Obliged