Home » Current Affairs » زلزلہ ۲۰۰۵ء | حصہ دوم

زلزلہ ۲۰۰۵ء | حصہ دوم

زلزلہ حصہ دوم

Fehmiology Recounts

زلزلہ ۲۰۰۵ - دوسرا حصہ

User Rating: 3.66 ( 4 votes)

زلزلہ ۲۰۰۵ والے دن بڑے بھائی کو جامعہ سے چھٹی تھی۔ وہ ہفتہ کے دن گاڑی کی صفائی دھلائی کروانے لے جاتا تھا اور بعد میں ابا کو گھر بھی لے آتا۔ وہ کشمیری بازار میں داخل ہوا ہی تھا کہ گڑگڑاہٹ شروع ہو گئی۔ اس نے یک دم گلی سے باہر چھلانگ لگا دی۔ آپس میں گلے ملتی عمارتیں، دیکھتے ہی دیکھتے ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ اڑتی پڑتی اینٹیں لگنے سے اس کی کمر اور ٹانگ پر زخم آئے تھے۔

~

میری ایک بہن تب اسکول میں پڑھاتی تھی۔ مہینہ کا آغاز تھا اور وہ فیسیں اکٹھی کر رہی تھی۔ جونہی جھٹکے شروع ہوئے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔ وہ ہمارے پاس پہنچی تو فیس کارڈ اس کے ہاتھ میں تھے مگر پیسے  راستے میں ہی کہیں گر گئے تھے۔ اس وقت بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی آتا، میری وہیل چیئر پکڑ کے ہی پوچھ رہا ہوتا، فہمی کدھر ہے؟ میں انہیں بتائے جا رہی تھی میں یہاں ہوں اور بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ مگر انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اتنی زلزلہ ۲۰۰۵ کی تباہی اور بربادی دیکھی تھی۔ سینکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنتے  دیکھا۔ میں معذوری کا شکار ہو کر بھی بچ گئی تھی، یہ بڑی بات تھی۔

~

مون اسی زخمی حالت میں بھاگتا ہوا آیا تھا۔ سڑک کے موڑ سے آواز دے کر سب کی خیریت دریافت کی۔ اسے بتایا کہ چھوٹی بہن ابھی تک کالج سے نہیں لوٹی تو وہیں سے پلٹ گیا۔ بہن کو کالج سے لاتے ہوئے اسے راستے میں ریاب (اس کا دوست) ملا۔ دونوں گھر کے موڑ پر بہن کو چھوڑ کر جامعہ کی طرف دوڑ گئے جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ چند شعبہ جات میں ۲۰۰۵ میں ہفتے کے دن تعطیل نہیں ہوتی تھی۔ جامعہ کو سب سے بڑا شعبہ جیالوجی تھا۔ طلباء کی کثیر تعداد شہید ہو چکی تهی۔ نجی اسکولوں اور کالجوں میں بھی قیامت صغریٰ برپا تھی۔ خصوصاً پائلٹ اسکول اور رضوان اسکول کے طلباء کی اکثریت جاں بحق ہو چکی تھی۔

~

ابا نے صلاح دی پچھلی جانب چوہدری بوستان کے صحن میں چلتے ہیں، جو کھلی جگہ تھا۔ ہم پہاڑی کے نکڑ پر بیٹھے تھے۔ یہ جگہ زیادہ محفوظ نہیں تھی۔ زلزلے کے تسلسل سے آتے جھٹکوں میں کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی تھی۔ آپ یقین نہیں کریں گے جب ہم پچھلے میدان میں پہنچے تو بعینہٖ وہی مناظر دیکھنے کو ملے جو میں خوابوں میں دیکھتی آ رہی تھی۔

کسی کی موت کی خبر سنتے ہی مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ مگر زلزلہ ۲۰۰۵ کے روز مجھ پر عجیب سی بے حسی طاری ہو گئی تھی یا شاید اس سانحے کے زیرِ اثر اعصاب شل ہو چکے تھے۔ زخمیوں اور لاشوں کو وہیں لایا جا رہا تھا۔ ہمارے اردگرد بے شمار لاشیں تھیں اور لاتعداد زخمی۔ گھروں کے گھر اجڑ گئے تھے اور دفنانے والا کوئی نہیں تھا۔ بے گور و کفن لاشیں اس ستم ظریفی پر خاموش تھیں۔

~

میرے بڑے بہنوئی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے صرف برمودہ پہنا ہوا تھا اور ننگے پاؤں تھے۔ اسی حالت میں وہ اپنے بھائی کے بچوں کی خیریت پوچھنے شوکت لائن گئے۔ پھر وہاں سے طبی سامان مل جانے کی امید پر سی ایم ایچ پہنچے جو ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا لیکن ڈاکٹروں کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ زلزلہ ۲۰۰۵ میں اپنے پیاروں کو کھو کر زخمیوں کی مرہم پٹی پر کمربستہ تھے۔ انہوں نے رہائشی کالونی میں آوازیں دے کر اہلِ خانہ کی موجودگی کا اندازہ لگانا چاہا کہ شاید کوئی زندہ ہو۔ لیکن وہاں صرف موت کی خاموشی رقصاں تھی۔ امید کی کرن نہ پا کر بولے، لگتا ہے کوئی نہیں بچا، چلو زخمیوں کو دیکھتے ہیں۔

سب سے پہلے انہوں نے ملبہ ہٹا کر ادویات برآمد کر کے آپس میں کام بانٹ لیے۔ یوں اسی ملبے کے ڈھیر پر اولین امدادی کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ بہنوئی ایک ٹوٹی پھوٹی بالٹی میں ادویات لے کر واپس آئے لیکن پٹیاں ندارد تھیں۔ انہوں نے وہاں موجود سب مردوں کی قمیصوں کے دامن کاٹ کر ان سے مرہم پٹی کا کام لیا۔

~

تمام مواصلاتی اور زمینی رابطے زلزلہ ۲۰۰۵ کے باعث منقطع ہو چکے تھے۔ بیرونی علاقوں سے مدد مانگنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ہمیں کچھ خبر نہیں نہ تھی کہ باقی علاقوں میں کیا حالات ہیں۔ اسی اثناء میں میرے ماموں آتے دکھائی دیئے جو ”آج نیوز“ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اس دن کی پہلی اچھی خبر دی کہ سیٹیلائٹ فون کے ذریعے اسلام آباد اطلاع کر دی گئی ہے۔

~

مجھے بے حد پیاس لگ رہی تھی مگر گھر کے اندر جانا موت کے منھ میں جانے کے مترادف تھا۔ قریب ہی بارش کے پانی کا ایک گندا سا جوہڑ تھا۔ میدان کے ساتھ چند دکانیں تھیں۔ ایک دکاندار نے کہیں سے اسٹیل کا گلاس لا کر دیا اور میں نے وہی پانی پی لیا۔ ایک دکاندار نے اپنی دکان سے بچوں کو بسکٹ اور جوس کے پیکٹ لا کر دیئے۔

تھوڑی دیر بعد ہم سب میدان سے سابق ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کے صحن میں منتقل ہو گئے۔ ماموں نے گھر والوں سے ٹیلیفون مانگا۔ زلزلے کے شدید جھٹکوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر فون باہر لایا گیا۔ شومئی قسمت کچھ دیر بعد کال مل گئی۔ رابطہ بحال ہوتے ہی ماموں نے سب سے پہلے اپنے چینل والوں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ پھر باقی لوگوں نے جہاں جہاں ممکن ہوا، اطلاع دینے کی کوشش کی۔ بہنوئی کے والد صاحب (ہمارے خالو) اسلام آباد میں مقیم تھے۔ انہوں نے بتایا ٹی وی پر صرف سپریم کورٹ کی عمارت گرنے کی خبر چل رہی ہے۔ جب بتایا کہ پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے تب انہیں صحیح معنوں میں تشویش لاحق ہوئی۔

~

ماموں کی کال کے تقریباً پندرہ منٹ بعد فضا میں ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ اس نے شہر کا فضائی جائزہ لیا اور واپس ہو لیا۔ تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹرز کا تانتا بندھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد امدادی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ زخمیوں کو اسلام آباد اور دیگر محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جانے لگا۔  باقاعدہ درجہ بندی کر کے شدید زخمیوں کو پہلے بھیجا جا رہا تھا۔

~

ماموں نے ابا اور بہنوئی سے کہا، میں خیموں کا بندوبست کرتا ہوں، آپ سب چھتر آ جائیں۔ وہ پیدل واپس چلے گئے۔ ابا کی گاڑی عدالت کے احاطے میں کھڑی رہ گئی تھی اور اسے وہاں سے نکالنے کا فی الوقت کوئی ذریعہ نہ تھا۔ لے دے کے بہنوئی کی کار ہی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ دو چکروں میں گھر والے چھتر جائیں گے۔ اس سانحے میں چھتر تباہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دریائے نیلم کی ایک جانب بہت تباہی ہوئی تھی جب کہ دوسری سمت نسبتاً محفوظ رہی تھی۔ جھٹکے اس طرف بھی زوردار آ رہے تھے مگر نقصان زیادہ نہیں ہوا تھا۔

~

زلزلہ ۲۰۰۵ کے جھٹکوں میں وقفہ آتا تو کوئی نہ کوئی بھاگم بھاگ ضروری اشیاء لے آتا۔ اوڑھنیاں، جوتے اور کمبل وغیرہ۔۔۔ ہم شام کے وقت روانہ ہوئے۔ مجھے پہلی باری میں بہنوں اور بچوں کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ ابا، اماں، ایک بہن اور ہنی (چھوٹا بھائی) پیچھے رہ گئے۔ اس دن سفر بہت لمبا محسوس ہوا تھا حالاں کہ بمشکل بیس پچیس منٹ کا راستہ تھا۔ چھتر پہنچ کر ہم پتھریلی زمین پر ہی بیٹھ گئے۔ کوئی بھی گھر میں جانے کا خطرہ نہیں مول لے رہا تھا۔ بہنوئی نے باقیوں کو لانے کے لیے گاڑی موڑی جو تھوڑا آگے جا کے رک گئی۔ پتہ چلا پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ وہاں کے رہائشیوں سے مانگا مگر کوئی بھی مدد پر تیار نہ ہوا۔ لوگ آئندہ حالات سے خوفزدہ تھے۔

ابھی ایک ہی خیمہ نصب ہوا تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ تڑتڑ برستی بارش کی وجہ سے خواتین اور بچوں سمیت مجھے بھی خیمے میں بھیج دیا گیا۔ افطاری کے بعد سب نے مل ملا کر کھانا بھی بنایا۔ آخر پاپی پیٹ کی آگ بھی سرد کرنا تھی۔ رات دس بجے ایک میجر صاحب نے ماموں کی درخواست پر سات لیٹر پیٹرول بھجوایا، اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ بہنوئی جانے والے تھے جب ابا کے دوست کی گاڑی ان سب کو لے کر آ گئی۔ سب نے شکر ادا کیا۔

~

ماموں کے برادرِ نسبتی نے ایک چارپائی ابا کے لیے لا دی۔ ان کے ساتھ بچے بھی چارپائی پر اور ہم نے پتھریلی جھاڑی دار زمین پر ترپال بچھا لی۔ رات آنکھوں میں کٹی۔ زلزلے کے جھٹکے مسلسل آ رہے تھے اور جھاڑیاں بدن میں کھبی جا رہی تھیں۔ سب رشتہ دار گاؤں میں تھے، وہاں کی فکر بھی دامن گیر تھی۔ رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ سڑکیں تک بند ہو چکی تھیں۔ اگلے دن کہہ سن کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے امدادی سامان بھجوایا گیا۔ مگر خیر کی خبر پھر بھی نہ مل سکی، ہیلی کے اترنے کی جگہ ندارد تھی۔

دوسرے یا تیسرے دن کچھ لوگوں کی آمد سے علم ہوا کہ میری دو خالاؤں اور دو پھوپھی زاد بہنوں سمیت سینکڑوں رشتہ دار شہید ہو گئے ہیں۔ نانی اماں چھوٹے ماموں کے پاس تھیں، ان سے یہ خبر کسی طور چھپا لی گئی۔ حالاں کہ وہ زلزلہ ۲۰۰۵ کے دن سے کہہ رہی تھیں مجھے پتہ ہے، کچھ نہیں بچا۔ خاص طور پر جب میری اماں مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرواتیں تو وہ مزید مشکوک ہو جاتیں۔ بڑے ماموں کو شدید زخمی حالت میں گاؤں سے لایا گیا۔ انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد پہنچا دیا گیا تھا۔

~

پہلا دن سڑک کے کنارے گزارا۔ پھر ماموں کے برادرِ نسبتی کے صحن میں خیمے لگا لیے۔ گھر والے امدادی کارروائیوں میں مقدور بھر حصہ لے رہے تھے۔ دوسرے دن منظم بنیادوں پر کام شروع ہوا۔ مختلف چینل والے زلزلہ ۲۰۰۵ کی کوریج کے لیے ماموں کے گھر براجمان ہو گئے۔

ان صحافیوں میں سے بیشتر کو ہم پہلے سے جانتے تھے۔ کچھ نئے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ریکارڈنگ ہم بنفسِ نفیس ملاحظہ کر رہے ہوتے تھے۔ مشتاق منہاس، طلعت حسین، اقبال حسین، کرن فلٹن (جارج فلٹن کی اہلیہ/المعروف جارج کا پاکستان) اور بہت سے دوسرے آتے جاتے ہم سے گپ شپ بھی لگاتے رہتے تھے۔ انہوں نے میری نانی اماں کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بھی بنائی تھی، جس کا نام شاید ”مریم کا سفر“ تھا۔ مریم میری نانی اماں کا نام ہے اور یہ ڈاکیومینٹری زلزلے کے بعد ان کے گاؤں کے سفر پر بنائی گئی تھی۔ ہماری گاڑی انہی صحافیوں اور میرے بھائیوں کے دوستوں نے رسیوں سے باندھ کر نکوایا تھا۔ ابا کے کتب خانے کی بہت سی کتابیں اور میرے رسالے بچا لینے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ تھا۔

~

ان دنوں میرا کام دن رات فہرستیں مرتب کرنا، امدادی سامان کی چیکنگ کرنا تھا۔ کون سے علاقے میں کن اشیاء کی زیادہ ضرورت ہے۔ خیمے، راشن، ادویات، کمبل اور ضروریاتِ زندگی کا ریکارڈ مرتب کرنا۔ لوگ آتے، اپنے اپنے علاقوں کی فہرستیں مجھے دیتے اور سامان لے جاتے تھے۔ میرا کام سب فہرستوں کو ترتیب اور حفاظت سے رکھنا تھا۔ سب مرد چوں کہ باہر نکلے ہوتے تھے تو میرا کام امدادی سامان سے متعلق ضروری معلومات رکھنا تھا کہ امدادی سامان کون سا آیا، کون لایا، باقی کتنا رہ گیا اور کون سی چیز مزید چاہیئے۔

زلزلہ ۲۰۰۵ کے دوران ایک نیا مشغلہ بچوں کے ہاتھ لگا تھا۔ وہ نیچے اسمبلی کے میدان میں بنے ہیلی پیڈ پر امدادی سامان لانے اور زخمیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر گنتے رہتے تھے۔ ان کے لیے یہ بڑی مزیدار مصروفیت تھی۔ ہمیں ان کے ذریعے اچھی خاصی معلومات مل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ہم امدادی کیمپوں کی صورت حال کا جائزہ لینے بھی جاتے تھے۔ اس وجہ سے غیر ملکیوں سے ملنے کا بہت مواقع ملے۔

~

ابا اور مون میرپور کا ایک چکر لگا آئے تھے۔ حالات سنبھلنے تک وہاں منتقل ہونے کا ارادہ تھا۔ وہاں کوئی گھر خالی نہیں ملا تھا۔ ابا کے دوست نے اپنا ایک خالی فلیٹ دیا جو تیسری منزل پر تھا۔ آمد و رفت کا واحد ذریعہ سیڑھیاں تھیں۔ میری وجہ سے سب متذبذب تھے مگر غنیمت تھا سر چھپانے کو جگہ مل رہی تھی۔ اس دوران عید آئی اور چپ چاپ گزر گئی۔ زندگی قدرے معمول پر آتی جا رہی تھی۔

~

پھر پندرہ نومبر ۲۰۰۵ کو ہم میرپور چلے گئے۔ دو دن ابا کے دوست کے گھر رہے جنہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔اس دوران فلیٹ کی صفائی ستھرائی کر کے سیٹ کیا اور ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ اگلے ساڑھے چار سال ہم نے اسی فلیٹ میں گزارے۔ مظفرآباد میں رہنے کو ہمارے پاس کٹیا بھی نہ تھی، بہن بھائیوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی تھا۔ ابا نے وہاں نئے سرے سے وکالت شروع کی۔ ان کے پاس تب کالا کوٹ تھا نہ چیمبر۔ ذوالفقار انکل نے ہی اپنا چیمبر دیا۔ آئی ٹی کا کیمپس بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد منتقل ہو گیا تھا تو مون وہاں رہنے لگا۔ ہنی آرمی اسکول منگلہ جانے لگا۔ زندگی پھر سے رواں دواں ہو گئی مگر اپنے پیاروں کو آخری وقت نہ دیکھ سکنے کی کسک آج بھی تڑپاتی ہے۔

تحریر: فہمیدہ فرید خان

حصّہ اوّل بھی پڑھیئے زلزلہ ۲۰۰۵ء | حصّہ اوّل

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

25 comments

  1. Like!! I blog quite often and I genuinely thank you for your information. The article has truly peaked my interest.

  2. Everything is very open with a precise explanation of the challenges.
    It was truly informative. Your website is very helpful. Thank you for sharing!

  3. It’s remarkable designed for me to have a website, which is valuable in favor of my know-how.
    thanks admin

  4. Thanks a ton for sharing this amazing webpage.

  5. Keep on writing, great job!

  6. hello there and thank you for your info. I’ve
    definitely picked up something new from right here. I did however expertise some technical issues using this site, as I experienced to reload the web site many times previous to I could get it to load correctly. I had been wondering if your web hosting is OK?
    Not that I’m complaining, but slow loading instances times will sometimes affect your
    placement in google and can damage your high-quality score if ads and marketing with Adwords. Anyway I am adding this RSS to my e-mail and could look out for a lot more of
    your respective fascinating content. Make sure you update this again very soon.

  7. Howdy! Someone in my Facebook group shared this website with us so I came to look it over. I’m definitely enjoying the information. I’m bookmarking and will be tweeting this to my followers! Fantastic blog and terrific style and design.

  8. You have made some good points there. I looked on the net for additional information about the issue and found most people will go along with your views on this website.

  9. whoah this blog is wonderful. I really like
    studying your articles. Keep up the great work! You know, a lot of persons are searching round for this information, you can help them greatly.

  10. Howdy! Looking at this article reminds me of my previous roommate! He continually kept preaching about this.
    I most certainly will send this article to
    him. Fairly certain he’ll have a very good read. Thank you for sharing!

  11. Terrific article! This is the kind of info that are meant to be shared across the web. Disgrace on the search engines for now
    not positioning this put up higher! Come on over and discuss with my website. Thanks =)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *