ناول: زیست موجِ صبا ہے
مصنفہ: تنزیلہ ریاض
تبصرہ: فہمیدہ فرید خان
ماہنامہ کرن ۲۰۰۳ء
میں آج کل آبان کی فہرست پر ہاتھ صاف کر رہی ہوں۔ وہ جس کہانی کی پوسٹ لگاتا ہے، اگر مجھے نہ پڑھنے کا شائبہ ہو تو فوراً پڑھ لیتی ہوں۔ پھر اگر ناول ہو بھی تنزیلہ ریاض کا تو رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی وقت دوڑ لگائی گوگل چاچا کی دکان پر۔۔۔ ان سے ”زیست موجِ صبا ہے“ لیا اور وہیں بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔
زیست موجِ صبا ہے کہانی اسفند یار کی تھی، زینب کی تھی، داؤد رضا کی تھی اور خضر السلام کی تھی۔۔۔ ارے ہاں اس کہانی میں دو بچے بھی تھے یعنی ماویٰ اور شہریار۔ گنے چنے کرداروں کے ساتھ کہانی اچھی تھی۔ کچھ غیبی کردار منظرِ عام پر نہیں آئے لیکن ان کا ذکر موجود تھا۔ جیسے اسفند یار کے ماموں۔
زیست موجِ صبا ہے
سب سے پہلے مجھے خضر السلام کے کردار کی موت پر اچھا بھلا دھچکہ لگ گیا تھا۔ بعد میں احساس ہوا کبھی کبھی کسی کردار کا مرنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ کہانی آگے کیسے بڑھے گی۔
دوسرے نمبر پر اسفند یار کا کردار عجیب الخلقت تھا۔ اتنے گرگٹ رنگ نہیں بدلتا، جتنے اس نے بدل لیے۔ پہلے وہ ہر لحاظ ہم درد دکھایا گیا، پھر شدید بد لحاظ۔۔۔ پہلے بہت پروا کرنے والا تھا اور اچانک آنکھیں ماتھے پر رکھ گیا۔۔۔ پورا کاروبار گنوا کے صرف ماموں کی بیٹی سے شادی نہ کرنے پر پاکستان واپس آنا کچھ ہضم نہیں ہوا۔
ماموں کا نادیدہ کردار کافی جاندار تھا۔۔۔ کیسے بھانجے کو شیشے میں اتارا۔۔۔ کیسے کاروبار ہڑپ لیا اور کیسے اسفندیار کو مطلب پورا ہونے پر ٹھڈا کرا دیا۔۔۔ اف اف اف
زیست موجِ صبا ہے پڑھتے ہوئے کئی مکالموں پر بے ساختہ ہنسی آئی، خاص طور پر ”یہ بل آپ کا ہوا“۔ اس کہانی کے کرداروں پر افسوس ہوا، ہنسی آئی اور غصہ بھی آیا۔۔۔ یعنی پیسہ وصول قسم کی کہانی تھی بھئی۔
اپریل ۱۵, ۲۰۲۱
یہ تبصرہ بھی پڑھیں امر سنگھ چمکیلا – بھارتی کلا کار کی کتھا