سامون پڑھنے سے قبل ایک مزے کی بات یاد آئی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے بچوں کی کہانیوں کے بعد سب سے پہلے عمران سیریز پڑھی تھی۔ عمران سیریز سے میرا تعارف بڑی بہن کے ذریعے ہوا تھا۔ انہیں کس نے بتایا یہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ ہمارے بچپن میں ڈھیروں ملکی و غیر ملکی اخبارات و جرائد موصول ہوا کرتے تھے، لندن اور سرینگر سے بھی۔ (اپنی یادداشت کے مطابق بتا رہی ہوں۔) ان اخبارات کا ایک وسیع ذخیرہ میرے تصرف میں تھا۔ کبھی گاؤں والے مانگنے آ جاتے اور کبھی ممی چھانٹی کر کے شیلفوں وغیرہ پر لگاتی تھیں۔
اخبارِ جہاں کے بہت سے شمارے بھی ترتیب سے ایک الماری میں رکھے تھے۔ یہ شاید میرے ماموؤں کا کارنامہ تھا۔ اس کے ابتدائی صفحات پر کافی سلسلے وار کہانیاں ہوا کرتی تھیں۔ میں نے تین عورتیں تین کہانیاں پڑھنے سے ابتداء کی۔ یہ کہانیاں چھوٹی ہوتی تھیں اور ان کے آگے باقی آئندہ بھی نہیں لکھا ہوتا تھا۔ سامون وغیرہ پڑھنا بہت بعد کی داستان ہے۔
~
سلسلہ وار کہانیوں میں سب سے پہلے کالے بلے والی کہانی پڑھنا شروع کی۔ اس میں نیلم تھی جو ملکوں ملکوں بھٹکتی پھری تھی۔ اس ناول کا نام پچھلے سال معلوم ہوا خالی گھر از انوار علیگی۔ ہم بہنیں اسے کالا بلا والی کہانی کہتے تھے۔ عموماََ ہم اکٹھے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ نیا شمارہ آنے کے بعد انتظار مشکل لگتا تھا اور چھینا جھپٹی کے ہم قائل نہیں تھے۔ بہن کہانی والا صفحہ نکال کر سامنے رکھتی اور ہم ان کے پیچھے پیچھے پڑھتے جاتے۔ پھر باری آئی اے حمید کی بارش سماوار خوشبو جو اس بالی عمریا میں سمجھ نہیں آئی تھی۔ پھر سامون کے تخلیق کار ایم اے راحت کی۔
کچھ لوگوں کو اعتراض تھا کہ میں نے طاہر جاوید مغل کو بڑھاپے میں کیوں پڑھا۔ جب مجھے مغل صاحب کے ناول پر تبصرہ کرنے پر بے بھاؤ کی پڑیں تب سوچنے پر مجبور ہوئی کہ مجھ سے غلطی کہاں ہوئی۔ میں بچپن سے ہر طرح کی کہانیاں پڑھتی آ رہی ہوں تو پھر مجھے وہ ناول کیوں پسند نہ آیا؟ کیا میرا ذوق مر گیا ہے؟ یہی جاننے کے لیے میں نے پوسٹ لگائی کہ میں نے ایم اے راحت کو پڑھنا ہے، کوئی ناول بتا دیں۔ ان کا لکھا ماشاءاللہ کافی زیادہ ہے۔ میں نے سب کی تجاویز نوٹ کیں اور ناول ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے تلاش کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ملا ساحر علی رانا کا پسندیدہ سامون۔
~
سامون ڈاؤنلوڈ ہو گیا، تب کالا جادو بھی مل گیا۔ مگر بھلا ہو موبائل کی اسٹوریج کا جس کا پیٹ ایک ناول سے ہی بھر گیا تھا۔ سو میں نے سامون پر اکتفاء کر لیا۔ ۴۳۵ صفحات کے اس ناول کے تین حصے ہیں۔ اس کی ابتداء غزالی کے تعارف سے ہوئی جسے آخری پرچے کے بعد بڑے بھائی فرحت کا تار ملتا ہے۔
غزالی کو گاؤں پہنچ کر علم ہوتا ہے اس کا باپ وفات پا چکا ہے۔ اس کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کا مرحوم باپ وراثت میں لمبا قرضہ چھوڑ کر مرا ہے۔ اسے یقین نہیں آتا اور وہ حقیقت کی کھوج میں لگ جاتا ہے۔ ایک رشتہ دار اس کی مدد کی حامی بھرتا ہے لیکن اس کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔ غزالی پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے جعلی دستاویزات تیار کروائی ہوئی ہیں۔ وہ انہیں چھوڑ کر نئی دنیا کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ کیا غزالی نے جائیداد میں سے حصہ لے لیا تھا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
~
غزالی شہر چلا جاتا ہے۔ وہاں اسے ایک دوست ملتا ہے محسن جو اسے اپنے باپ یعنی حسن صاحب کے پاس نوکری دلوا کر رہنے کے لیے گھر کی انیکسی فراہم کر دیتا ہے۔ حسن صاحب کی کوٹھی میں ایک بوڑھے بابا ہوتے ہیں جن کی دماغی صحت اچھی نہیں ہوتی۔ ان کا علاج ڈاکٹر طاہر علی کر رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ دیکھ بھال داور کے سپرد تھی جو بہت سنگ دل تھا۔ بوڑھے بابا کے کام ہدایت کرتا تھا۔ ایک دن غزالی نے داور کو بابا پر تشدد کرنے سے روک دیا۔ اس کے نتیجے میں کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
حسن صاحب کی اولاد میں محسن، احسن، ناصر، تنویر اور ندرت ہیں۔ محسن کی منگیتر فریحہ ہوتی جو سامون کے آخری حصے میں پہنچ کر اچانک ملیحہ بن گئی تھی۔ لگتا ہے ایم اے راحت صاحب بھی میری طرح پچھلی اقساط نہیں پڑھتے تھے۔ حسن صاحب کے دوست طاہر علی کی بیٹی ہما غزالی پر لٹو ہو جاتی ہے۔ کیا ہما کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
تنویر کی سہیلی جولیا بیلجئم سے آتی ہے۔ وہ غزالی کے ساتھ اسے ہوائی اڈے سے لینے جاتی ہے۔ جولیا حسن صاحب کے دوست میکے براؤن کی بیٹی تھی۔ میکے براؤن اور حسن صاحب کے ہاتھ جاپان میں اتفاقاً ولاڈی واسکاٹ کی ڈائری لگ گئی تھی۔ اس میں جنگِ عظیم دوم کے کسی خزانے کی نشان دہی کی گئی تھی۔ وہ اپنا کاروبار چھوڑ کر خزانے کی تلاش میں جت جاتے ہیں۔ حسن صاحب کی کوٹھی والے بوڑھے بابا کا خزانے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کیا انہیں خزانے تک رسائی ملی؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
~
تنویر غزالی کو بتاتی ہے کہ ندرت اس کی سگی بہن نہیں ہے۔ ایک دن وہ ندرت کو بوڑھے بابا کے گھٹنے پر سر رکھ کے روتے دیکھ کر بھونچکا رہ جاتا ہے۔ غزالی کو پتہ چلتا ہے کہ میکے براؤن اور طاہر علی حسن صاحب کو ڈبل کراس کر رہے ہیں۔ وہ بوڑھے کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی ترکیب سوچتا ہے۔ وہ اپنے ایک جرائم پیشہ دوست قادر کو ساتھ ملاتا ہے۔ لیکن بوڑھا کسی اور کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ بالآخر وہ کنور پربھات کھنہ کی کوٹھی سے برآمد ہوتا ہے۔ پربھات کنور کھنہ کون تھا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
جب وہ چڑھ گیا کسی اور کے ہتھے۔۔۔ غزالی میاں جا بجے کنور پربھات کھنہ کے متھے۔ اس کی بیمار بیٹی اوشا ڈاکٹر طاہر علی کے زیرِ علاج تھی۔ اس بنیاد پر وہ سب کنور پربھات کھنہ کے مہمان بن جاتے ہیں۔ بعد میں کنور بھی خزانے کی تلاش میں شامل ہو جاتا ہے۔ مگر بوڑھا کہاں گیا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
ایک دن ندرت اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی کمی کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ ندرت کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی اور کیوں کر غائب ہو گئی؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
~
سب واقعات سے قطع نظر غزالی، حسن صاحب، طاہر علی اور کنور پربھات کھنہ تبت جانے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ انہیں چانگ لی سے ملنا ہوتا ہے جو ممکنہ طور بوڑھے کے بارے میں جانتا ہے۔ باقی قانونی طریقے سے پہلے جاپان اور پھر تبت روانہ ہوتے ہیں۔ جب کہ غزالی قادر کے ساتھ غیر قانونی طور پر نیپال میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں پولیس ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ قادر شدید زخمی حالت میں غزالی کو بھگا دیتا ہے۔ کیا قادر بچ پائے گا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
آخری حصہ سب سے دلچسپ ہے۔ جولیا اور میکے براؤن غزالی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ مگر ایک قافلے کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جس کی سربراہ ساریا ہوتی ہے۔ وہ بھی غزالی سے متاثر ہو جاتی ہے۔ جولیا اور ساریا کے مابین غزالی کی خاطر رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے۔ جولیا اور ساریا میں سے کون فاتح نکلا؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
~
تبت پہنچ کر غزالی کو سمبوتوہارا اور ہائیسا مل جاتے ہیں۔ وہ اسے مارشل آرٹ اور خفیہ قوتوں پر دسترس رکھنا سکھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کرنل آسٹن بھی شامل ہو جاتا ہے لیکن وہ قید ہو کر بچھڑ جاتے ہیں۔ غزالی قید خانے سے بھاگ نکلتا ہے۔ پھرتے پھراتے اسے ایک غار میں خزانہ مل جاتا ہے۔ جی ہاں وہی جنگِ عظیم دوم والا خزانہ۔ وہ نشانی ذہن میں رکھ کر وہاں سے نکلتا ہے۔ اسے پروفیسر ریڈال کی بیٹی سونیتا مل جاتی یے جسے غزالی پسند آ جاتا ہے۔ سونیتا کا کہانی سے کیا تعلق ہے؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
پروفیسر ریڈال بھی خزانے کی تلاش میں ہوتا ہے۔ ساتھ میں انہیں ویلینی کی تلاش ہوتی ہے۔ ندرت کی شکل ویلینی سے ملتی تھی مگر وہ جوان تھی جب کہ ویلینی کو بوڑھا ہونا چاہیئے تھا۔ پروفیسر ریڈال غزالی کو ایک قبیلے میں سردار کے طور پر بھیجنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ کیا غزالی قبیلے کا سردار بن پائے گا؟ کیا ریڈال کا منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟ اور کیا سونیتا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
پڑھ ہی ڈالیے سامون۔ جہاں دوسری جنگِ عظیم کے خزانے کی تلاش میں دنیا بھر کے سراغ رساں، کاروباری حضرات، فوجی، سائنس دان اور ڈاکٹر جمع ہیں۔ آگے غزالی وغیرہ برطانیہ چلے جاتے ہیں، وہاں سے سویڈن لیکن کہانی کی بنت مربوط ہے۔ سامون پڑھنے سے مجھ پر واضح ہوا کہ دراصل وہ نکتہ یہی تھا جس کی وجہ سے مجھے کربِ آشنائی پسند نہیں آیا تھا۔ کیوں کہ مغل صاحب نے ہیرو کو مختلف ملکوں میں انے وا گھسا دیا تھا۔ جب کہ ایم اے راحت نے بہت اچھی منظر نگاری کی ہے۔
~
اس ناول کا نام سامون نامی مخلوق سے موسوم ہے جو کسی دوسری دنیا سے بھٹک کر زمین پر آئی ہے اور اب واپس جانا چاہتی ہے۔ اس کا مخالف گروہ اسے مارنا چاہتا ہے۔ غزالی تمام سامونوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیتا ہے۔ کیا وہ واپس جانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
تنویر، ہما، جولیا، اوشا، ساریا، سونیتا، ایشلا، ہیلن مورگر میں سے کون بنی غزالی کی ہیروئین؟ یہ جاننے کے لیے پڑھیئے سامون۔
سب سے مزے کی چیز کٹالی تھی اور دلچسپ منتر۔ سامونوں کے نام اور حرکتیں بھی زبردست تھیں۔ تاہم ایک چیز نے کافی زچ کیا۔۔۔ غزالی جب کسی سے ملتا تو اپنا پورا منصوبہ اس کے گوش گزار کر دیتا تھا۔ اگلا بھی اتنا معصوم ہوتا کہ اس کے خلاف کہیں استعمال نہ کرتا۔ بہرحال اچھا تجربہ رہا۔ آپ بھی ایک اچھی کہانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے پڑھیئے سامون۔
۔ ۰۴ فروری ۲۰۲۰ء
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
گزشتہ تبصرہ بھی پڑھیں ہنزہ داستان – مستنصر حسین تارڑ