سانسوں کے اس سفر میں از ام ایمان قاضی
تبصرہ نگار: آبان احمد
سانسوں کے اس سفر میں امِ ایمان قاضی کا پہلا قسط وار ناول ہے۔ چونکہ یہ ناول آنچل میں شائع ہوا تو مجھے لگا اس میں ادارہ کی پالیسی کا رنگ ہو گا۔ وہی روایتی رنگ، سادہ سی کہانی، روٹھنا منانا، مان کر بھی نہ ماننا۔ آپی پر بھروسہ تھا، ساتھ ساتھ ہدایت کہ سسپینس لازمی رکھیے گا۔ بہرحال ناول مکمل ہوا۔ بالآخر کتابی شکل میں ڈھل کر قارئین کے ہاتھوں تک بھی پہنچ گیا الحمدللہ
کہانی ہے مریم اور شائستہ دو بہنوں کی۔ نصیب کا لکھا نہ ماننے اور حد کرنے کی۔ رب کی رضا سے منکر ہونے کی۔ مریم کا نصیب شائستہ کے دل کے ٹکڑے کر گیا… وقت نے دیکھا وہ سلجھی شائستہ کیسے اماں جہان کے روپ میں ڈھل کر ایک نہیں کئی زندگیوں کی بربادی کی بنیاد ٹھہری۔ فیروزہ، منتہی، یشرہ، عبدالمنان، آمنہ، مومنہ، وریشہ، منتہی کے ماں باپ، عبدالمعیط۔۔۔ دوسری طرف مریم نے اپنی نیک فطرت و عادات سے ایک مضبوط اور پیار و امن کے گہوارے کی بنیاد کو پروان چڑھایا۔ لیکن کہتے ہیں نا ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ ایسے ہی آیت نے اماں جی کے امن کے گہوارے کو گہن لگا دیا… جس کی بھینٹ فرمانبردار سی تائی صفیہ چڑھی… کئی برسوں کی محنت و محبت کو حاسد بھانجی کی نذر کر دیا۔
~
سانسوں کے اس سفر میں کے سب سے پیارے کردار شجر اور فجر… ناول بہت پیارا ہے۔ آیت انتہا پسند، شدت پسند، حاسد اور کینہ پرور تھی۔ اس نے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے پر بھی ظلم کئے… پھر اسی حسد میں خود بھی جل کر راکھ ہو گئی۔ حسد ہو یا غصہ، نفرت ہو یا ضد، معاف کرنے والے کے لیے یوں ہی بڑے اجر کا وعدہ نہیں ہے۔ ان منفی جذبوں کو شکست دے کر معاف کرنے والا دنیا میں سکون کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرتا ہے۔
سانسوں کے اس سفر میں کا ایک اقتباس ہے۔ ”ہم مہینے میں دس قرآن پاک مکمل کر لیں، ایک مہینے کا راشن کسی غریب بھائی کے گھر میں ڈلوانے کا خیال تک دل میں نہیں آتا۔ ایک پل میں کسی کی دل شکنی کر کے اگلے پل ہم مصلے پر رب کے حضور پیش ہو جاتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ رب کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ جب تم اس کے بندے کو رلا کر اس کا حق مار کر اس کے سامنے سر بسجود ہونے آئے ہو۔“ خوب
~
چونکہ سانسوں کے اس سفر میں مصنفہ کا پہلا قسط وار ہے اس لیے بہتری کی گنجائش ہے۔ جیسے مجھے لگا کہ منتھی کو اتنا جلدی نہیں مرنا چاہیئے تھا۔ یشرہ اور عبدالمنان والا ٹریک بہت تھکا ہوا تھا۔ اماں جہاں کو اتنی جلدی پسپائی اختیار نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ شجر کو بہت جلدی سیریس کر دیا۔ اس کی اونگی بونگی حرکتوں پر زیادہ لکھنا چاہیئے تھا۔ مطلب زیادہ سین ہوتے اس کے۔ آیت کے ساتھ فیصل کا انجام بھی بھیانک ہونا چاہیئے تھا۔ کسوہ کو مردہ پیدا ہونا چاہیئے تھا۔ منتھی کی جو کنڈیشن تھی اور پری میچیور بچی کو بغیر انکیوبیٹر میں رکھے ڈسچارج بھی کر دیا۔ ایسا نہیں ہوتا اور جمیل والا ٹریک بہت بچگانہ تھا۔
~
ان سب بلنڈر کے بعد بھی سانسوں کے اس سفر میں کی کہانی بہت پیاری تھی۔ اختتام تک پہنچتے پہنچتے اپنے سحر میں مبتلا کر گئی۔ کتاب علی میاں پبلیکیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ بہت خوبصورت کور، بائینڈنگ اور پیجز سب ہی اعلٰی کوالٹی۔ تعریف کی مستحق کتاب۔ ام آپی اب جلدی سے دل کانچ کا گھر بھی کتابی شکل میں لے آئیں۔ آپ کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
گزشتہ تبصرہ اک محبت کی جستجو – صائمہ نور
Asking questions ɑre in fact nice thing if you are not understanding anything fully, but this piece of writing ցives fastidious understanding even.