Home » Movie, Drama and Series Reviews » | شرجینہ مصطفٰی کی تلخ کلامی؟ کبھی میں کبھی تم | Kabhi Main Kabhi Tum

| شرجینہ مصطفٰی کی تلخ کلامی؟ کبھی میں کبھی تم | Kabhi Main Kabhi Tum

کبھی میں کبھی تم

کبھی میں کبھی تم | قسط نمبر ۲۹

اس وقت بہتر یہی ہے کہ شرجینہ کچھ عرصہ والدین کی طرف چلی جائے۔ لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ ان کی تلخ کلامی کے اختتام پر پھڈا ہی ہونا ہے۔

Follow
User Rating: 4.26 ( 2 votes)

شرجینہ مصطفٰی کی تلخ کلامی؟

یہ گھر میرے اور شگفتہ کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔ افتخار انکل کے کہنے پر گفتگو اس نہج پر پہنچ گئی کہ عدیل کی بلیک میلنگ نے ماں کو اتنا جذباتی کر دیا اور انہوں نے گھر بیچنے کا عندیہ دے دیا۔ ”اگر مجھے کسی پر بھروسہ ہے تو وہ تم ہو عدیل۔“ او خدایا، شگفتہ آنٹی نے ساری کشتیاں جلا دیں۔۔۔ مگر افسوس ان کا یہ مان اِسی قسط میں ہی ٹوٹ گیا۔۔۔ اور مجھے سچ مچ بہت دکھ ہوا۔

افتخار انکل کی خود کلامی دل چیر گئی۔ ”جن کا زندگی بھر سوچا، انہوں نے صرف اپنا سوچا۔ باپ اور اولاد کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ وہ مصطفٰی کی وجہ سے مکان بکنے پر خاموش ہو گئے تھے۔ کیوں کہ عدیل نے بولا تھا کہ مصطفٰی اور سدرہ کو حصہ دے گا، خود کچھ نہیں لے گا۔

ویسے یہ وہی مکان ہے جس کا اس نے باپ کو طعنہ دیا کہ بنکوں سے قرض لے کر تو آپ بمشکل یہ گھر بنا پائے ہیں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وہی گھر اس کے کام آ گیا۔ وہ والدین کو رباب کے گھر لے گیا۔ وہ اس دربدری کے مستحق نہ تھے۔

دوسری جانب رباب عدیل کے کارنامے دیکھ کر دنگ تھی۔ اس نے خود کو فوری طور پر سنبھال لیا لیکن اس کا دل ٹوٹ چکا ہے۔ اب وہ عدیل کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی۔

مصطفٰی اور شرجینہ کی لڑائی ہو گئی اور وجہ مرتضٰی انکل بنے۔ ان کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ وہ داماد اور بیٹی کا تعلق خراب کر رہے ہیں۔

گیم اتنی اچھی نہیں چل رہی۔ مصطفٰی دانش سے بھی تلخ کلامی کر گیا۔ اسے جلد از جلد بہت سے پیسے کمانے ہیں۔ یہ اس کے سسر کے طعنوں کا ردِ عمل ہے۔

او بھائی، ٹینشن کیوں لیتے ہو۔۔۔ گیم کا لنک مجھے بھیج دو، میں کھیل کھیل کے گھسا دوں گی۔ بوسٹ ہو جائے گی گیم، کیسا؟

اتنے مہینوں سے (ڈرامے کے وقت کے مطابق) سدرہ اور نتاشا منظرِ عام سے غائب ہیں۔ سدرہ طویل عرصے سے اپنے ماں باپ سے ملنے نہیں آئی، جب کہ پہلے ہر ہفتے ٹپکی ہوتی تھی۔ اسے گھر بکنے کی بھی خبر نہیں۔ چلو اس کو تو اگلی قسطوں میں پتہ چل جائے گا لیکن نتاشا کہاں گئی؟ عدیل نے اس سے کیسے پیچھا چھڑایا؟ کوئی جھلک تو دکھائی جاتی۔

مصطفٰی کو کیسے پتہ چلے گا کہ گھر بک گیا ہے اور اس کے والدین دربدر ہو چکے ہیں۔

مصطفٰی بات بات پر جھنجھلا رہا ہے۔ جو وہ کرنا چاہتا ہے، نہیں کر پا رہا۔ اوپر مرتضٰی انکل کے ذہن میں جو بدگمانی بیٹھی تھی، اسے ختم کرنے کی کوشش شرجینہ کر رہی ہے نہ مصطفٰی۔ بھئی انکل کو بتا کیوں نہیں دیتے کہ مصطفٰی اب نکھٹو اور ناکارہ نہیں، دو (۲) لاکھ ماہانہ کما رہا ہے۔

میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ ابشرجینہ غلط کر رہی ہے۔ مصطفٰی کو رشتوں میں توازن رکھنا آتا ہے۔ جب شرجینہ اسے عدیل اور رباب کی برائیاں اور شگفتہ آنٹی کے مظالم بتاتی تھی تو وہ آرام سے سن لیتا تھا۔ اب مصطفٰی اسے مرتضٰی انکل کے برے رویے کا بتا رہا ہے تو وہ برا مان رہی ہے کہ میرے ابا کو کچھ مت کہو۔۔۔

کیوں بھئی، کیوں نہ کہے وہ؟ اس پر کام کا دباؤ اور جذباتی مسائل کم ہیں جو وہ انکل کی جلی کٹی بھی سنے؟ کیوں سنے وہ۔۔۔ مصطفٰی نے اب تک رشتوں کو عزت دی ہے، اسے کم از کم ایک رشتے سے سکھ ملنا ہی چاہیئے۔ سلمٰی آنٹی نے مرتضٰی انکل کو شرجینہ کا وائس نوٹ سنوا کے منع کیا تھا کہ بیٹی کے معاملات میں دخل اندازی مت کریں۔۔۔ انکل آپ باز کیوں نہیں آتے؟

مصطفٰی یہ سب شرجینہ کے لیے کر رہا ہے، پھر بھی وہ خوش کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ سمجھ میں آنے والی ہے۔ شرجینہ نے کبھی زیادہ پیسوں کی چاہ نہیں کی۔ وہ مصطفٰی کے ساتھ ہر حال میں خوش تھی۔ جس طرح کے حالات سے مصطفٰی گزرا ہے، اسے پیسہ سب سے اہم لگ رہا ہے اور شرجینہ سے یہی برداشت نہیں ہو رہا۔ وہ کہہ چکی ہے کہ کیا اسے وہ مصطفٰی کبھی نہیں ملے گا جو ہنستا تھا، قہقہے لگاتا تھا اور زندگی کو بالکل سیریس نہیں لیتا تھا۔۔۔ اس حال میں موڈ سونگز اور تنہائی شرجینہ پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔اس وقت بہتر حل یہی ہے کہ شرجینہ کچھ عرصہ والدین کی طرف چلی جائے۔ لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ ان کی تلخ کلامی کے اختتام پر پھڈا ہی ہونا ہے۔

فہمیدہ فرید خان

دانش صدیقی اور رباب کا ربط؟ | کبھی میں کبھی تم

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *