عدیل کی تذلیل
کبھی میں کبھی تم
قسط نمبر ۳۲
یہ قسط رباب کے نام رہی۔۔۔ اس نے پچھلی قسط سے ہی صورت حال اپنے قابو میں رکھی اور بازی اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دی۔ اس نے عدیل کی سب مہمانوں کے سامنے تذلیل کر کے میلہ لوٹ لیا۔ ہر ایک کی اداکاری اس کے سامنے پھیکی پڑ گئی۔ یہ رباب کا دن تھا، اوہ معذرت رات تھی۔
رباب نے نتاشا کو بھی آئینہ دکھا دیا، وہ اسی کی سزاوار تھی۔ اس نے ایک جانب اپنی بہترین دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور دوسری جانب اچھے شوہر کو دھوکہ دیا۔ اب کوئی اپنے دوستوں پر کیسے اعتبار کرے گا، نتاشا نے بہت بری مثال پیش کر دی ہے۔ عدیل اب جیل کی چکی پیسے گا جب کہ نتاشا کو اس کا شوہر طلاق دے کر چلتا کرے گا۔ سلمان کے لیے بہت دل دکھا، وہ بندہ ایسی بیوی کا مستحق نہیں تھا۔
عدیل نے الزامات ماننے کے بجائے صفائی دینے کی کوشش کیوں کی؟
پہلی بات یہ تھی کہ اس کا خود پہ اندھا اعتماد تھا۔ اسے یقین تھا، وہ پکڑا نہیں جا سکتا۔ دوسرے وہ نرگسیت کا شکار تھا۔ اپنی ذہانت اور وجاہت کی وجہ سے اسے زعم تھا کہ وہ حالات اپنے بس میں کر لے گا۔ یہی بے جا خود اعتمادی اسے لے ڈوبی۔
•
رباب نے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ اپنے ساس سسر کی بھی تحقیر کر کے گھر سے نکال دیا۔ شکر ہے افتخار انکل کو دل کا دورہ نہیں پڑ گیا۔ انہوں نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنا بھاری بھرکم بیگ سڑکوں پر گھسیٹمتے رہے. میں سوچ رہی تھی وہ یقیناً سدرہ کی طرف جائیں گے اور یہی ہوا۔۔۔ اگلی سوچ یہ تھی کہ کیا وقاص بھائی اب بھی اچھے داماد رہیں گے یا نہیں؟
اکثریت کا کہنا ہے کہ رباب کو کیوں سزا نہیں ملی؟
رباب نے شرجینہ اور مصطفٰی کے ساتھ برا کیا تھا۔ تو عرض ہے کہ رباب کے ساتھ بہت برا ہو چکا ہے۔ اس نے بظاہر حوصلہ مندی سے عدیل کی تذلیل کی لیکن اندر سے وہ ٹوٹ چکی ہے۔ اسے عدیل سے سچ مچ محبت تھی۔ یہ اور بات کہ عدیل کو صرف خود سے پیار تھا یا پھر دولت کی ہوس۔۔۔ اس نے رباب کو دھوکہ دیا۔ اس کی بچپن کی دوست سے افیئر چلا کر اس کا مان توڑا۔۔۔ کاروبار میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
اس سے برا اور کیا ہونا تھا رباب کے ساتھ؟ ماں پاس ہے نہ باپ۔۔۔ شوہر پر تکیہ تھا مگر وہ کمینہ بھی خبیث نکلا۔۔۔ آپ کیا چاہتے ہیں وہ غریب ہو جائے؟ سڑکوں پر آ جائے؟ اس کے ساتھ جتنا برا ہونا تھا، ہو چکا ہے۔ اگر مزید کوئی کسر رہتی ہے تو تین قسطیں ابھی باقی ہیں دوستو، ہو سکتا ہے آپ کے دلوں میں ٹھنڈ پڑ جائے۔
•
پہلی مرتبہ مجھے شرجینہ والا ٹریک اچھا نہیں لگا۔ پچھلی قسط میں سب کو اعتراض تھا کہ شرجینہ نے اپنے والدین ک کیوں نہیں بتایا۔ اس قسط میں یہ تذبذب دور ہوا لیکن انداز بہت بھونڈا تھا۔ شرجینہ نے ماں، باپ اور بہن کو کالیں کیں مگر کسی ایک نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ ایسا نہیں ہوتا بھئی کہ سب کے ساتھ اکٹھے پنگا ہو جائے۔ اوپر سے مرتضٰی انکل مجھے زہر لگے جب وہ مصطفٰی کو باتیں سنا رہے تھے۔
کوئی ان کو یاد دلائے کہ مصطفٰی سے شادی کا فیصلہ ان کی بیٹی کا تھا۔۔۔ لیکن مصطفٰی نے کبھی شرجینہ کو اس بات کا طعنہ نہیں دیا بلکہ ساتھ نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مرتضٰی انکل آپ مصطفٰی کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے مگر اول روز سے ہی عجیب چول حرکات کر رہے تھے۔ شادی کے اگلے دن ہی ملازمت کا یوں پوچھ رہے تھے جیسے شادی نہیں، جادو کی چھڑی تھی جو مصطفٰی کو یک دم کامیاب و کامران بنا دے گی۔
•
جہاں تک گھر جانے کی بات ہے، یہ ان کی بیٹی تھی جو نہیں جانا چاہتی تھی۔ مصطفٰی تو گھر سے نکلتے ہی اسے وہیں چھوڑنے جا رہا تھا لیکن شرجینہ نہیں مانی تھی۔ گو کہ اس کا فیصلہ درست تھا۔ اس کے ساتھ کی وجہ سے مصطفٰی اپنی تذلیل پس پشت ڈال کر مسائل حل کرنے میں جت گیا۔ جب وہ مالی مسائل حل کرنے میں لگا ہوا تھا، تب بھی مرتضٰی انکل کے ماتھے کے بل نہیں جا رہے تھے۔ آج تو انہوں نے اپنی کوتاہی سے صرفِ نظر کر کے سارا الزام مصطفٰی پر دھر دیا تو مجھے بہت غصہ آیا۔
آپ کو پتہ تھا آپ کی بیٹی کی طبیعت نہیں اچھی اور آپ کی بیگم سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں تو آپ خود چکر لگا لیتے۔ آپ کو مصطفٰی سے مسئلہ تھا نا، بیٹی سے تو نہیں۔۔۔ یا رامین کو چھوڑ دیتے۔ یمنٰی اب بھاگی آئی ہے، پہلے بھی آ سکتی تھی۔
اس ڈرامے میں مصطفٰی کو پہلی مرتبہ نماز پڑھ کے گڑگڑاتے دیکھا۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم خالقِ کائنات کو بھولے رہتے ہیں لیکن جب مصیبت پڑتی ہے تو اللہ یاد آتا ہے۔۔۔
میں دیکھتی تھی کہ شرجینہ کچھ لکھ کے دیوار پر چپکاتی تھی۔ آج وہ اسٹکی نوٹس دیکھ کر دل بہت اداس ہوا۔
جذباتیت سے قطع نظر وہ نوٹس رومن میں دیکھ کر اچھا نہیں لگا۔ ہماری اپنی اچھی خاصی زبان ہے اردو اور اس رسم الخط بھی موجود ہے۔ ڈرامہ اردو میں لکھا گیا ہے لیکن اس میں انگریزی ایسے گھسائی گئی ہے جیسے ہماری قوم کی جڑوں میں سرایت کر چکی ہے۔ انگریزی کی محبت میں اندھے ہو کر ہم جانے کون سے گڑھے میں گرنے جا رہے ہیں۔۔۔
میں مصطفٰی کے لیے دکھی ہوں۔۔۔ وہ اکیلا رہ گیا ہے۔۔۔
گزشتہ تبصرہ: کیا شرجینہ مر جائے گی؟