عشق کا قاف از امجد جاوید
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
مارچ دو ہزار اٹھارہ میں عشق کا قاف لالو پرساد کے لیے ڈاؤنلوڈ کیا جو موبائل ک ڈرائیو میں پڑا رہ گیا۔ پرسوں مابدولت نے سوچا موبائل کی صفائی کر لوں اور سامنے یہ ناول نظر آ گیا۔ اسے دیکھتے ہی میرا موڈ بدل گیا۔ سو جناب صفائی کا ارادہ مؤخر کر کے ناول پر نظریں ٹکا لیں۔
_
ناول کا آغاز اچھا تھا۔ چولستان کے صحرا نے فوراً توجہ کھینچ لی اور بہترین منظرکشی نے پڑھنے پر اکسایا۔ اس کے ساتھ ساتھ خواجہ غلام فرید سائیں کی کافی مزہ دے گئی جو سانول گا رہا تھا۔ اتنے میں اس کا بھائی بھیرا کھانا لے کر آ گیا۔ اچانک اس کی نظر ریگستان کے بیچوں بیچ پڑی اور اس نے وہاں علی یعنی ناول کے ہیرو کو پڑا دیکھا۔ وہ اسے زخمی حالت میں اٹھا کر گھر لے گیا۔۔۔ یہاں سے شروع ہوئی ایک نئی داستان۔۔۔
علی کی کلاس فیلو فرزانہ خان اس سے عشق کرتی تھی۔ فرزانہ خان ایک سیاستدان امین خان کی بیٹی تھی جبکہ علی ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ علی نے فرزانہ خان کو چٹا انکار پکڑا دیا جو اسے پسند نہ آیا۔ اس نے انتقاماً علی کو روہی کے صحرا میں پھنکوا دیا۔ سانول کے گھر علاقے کے روحانی بزرگ میاں جی نے اس کا علاج کیا۔ روہی کا یہ علاقہ امین خان کے حریف سیدن شاہ کی ملکیت تھا۔ اس نے یہاں کے مکینوں کو محکوم بنا رکھا تھا۔ علاقے پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے وہ ہر حربہ آزماتا تھا۔ اس کی ذاتی جیل تھی۔ وہ لڑکیوں کو بھی حویلی میں لا کر رکھتا تھا۔ اس کے بیوی بچے برطانیہ میں مقیم تھے اور وہ صرف عرس کے موقع پر آیا کرتے تھے۔
_
پھر عشق کا قاف میں کچھ ترتیب وار واقعات ہوئے۔ علی کو میاں جی سے کشف ملا اور وہ سائیں جی بن گیا۔ فرزانہ خان بھی سیدھی راہ پر چل پڑی۔ سیدن شاہ نے بیٹے کے قتل کے بعد خودکشی کر لی۔ مہرو سانول کے قتل کے بعد عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کی مدارج طے کرنے لگی۔
عشق کا قاف کی کہانی اچھی تھی۔ اس میں میری دلچسپی آخر تک برقرار رہتی۔۔۔ اگر اس میں واقعات حسنِ ترتیب سے لکھے جاتے۔ کچھ کجیوں کے باعث تحریر کا حسن گہنا سا گیا جس سے مجھے پڑھتے ہوئے شدید جھنجھلاہٹ ہوئی۔
سانول علی کو شہر کی سڑک تک واپس چھوڑنے کا جا رہا تھا۔ بیچ راستے کے اچانک مہرو کو بھگا لے گیا اور خان محمد کے ڈیرے پر مہرو کے بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ جب سانول قتل ہوا تو علی نے صحرا میں رہنے کا قصد کر لیا۔ اس نے اس امر کی اطلاع تک ماں باپ کو دینے کی زحمت گوارا نہ کی کیونکہ وہ بھیرے اور اس کی ماں کا سہارا بننا چاہتا تھا۔
_
عشق کا قاف بھی ایک عجیب تحریر تھی۔ بیچ میں پولیس علی کو شہر لے گئی۔ جب وہ شہر سے واپس روہی گیا تو بھیرے اور اس کی ماں کو بالکل بھول گیا۔ اس کا روہی سے دانہ پانی اٹھ گیا تو اسے واپس شہر جانے کا اِذن مل گیا۔ وہ گھر آیا تو انتہائی بھونڈے طریقے سے گھر والوں کو اپنی کرامات دکھائیں۔ دوسری طرف مہرو کو بیٹھے بیٹھے کشف ہو جاتا تھا۔ وہ کھل کر سب کچھ بتاتی تھی۔ ایسا کہاں ہوتا ہے بھئی۔۔۔ سب سے عجیب حرکت قتل کرنے کا طریقہ تھا۔۔۔ اس سے تو اللہ بچائے۔۔۔ پہلے سانول اور پھر سیدن شاہ کے بیٹے شہزاد کے قتل والا حصہ تو بہت ہی عجیب تھا۔
عشق کا قاف امجد جاوید کی پہلی تحریر تھی جو میں نے پڑھی۔ وہ یقیناً ایک اچھے لکھاری ہوں گے مگر اس ناول نے مجھے بڑا بددل کیا۔ اس ناول کی کافی تعریف سنی تھی۔ میری اس سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن افسوس یہ عشق کا قاف میری امیدوں پر پورا نہ اتر سکا۔
بتاریخ ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۸
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ شکستِ شب