غار حرا میں ایک رات
مستنصر حسین تارڑ
مستنصر حسین سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو یہ پی ٹی وی پر صبح کا پروگرام کرتے تھے اور خود کو سب بچوں کے چاچا کہلواتے تھے۔ ہم اسکول جانے سے پہلے پروگرام کا کچھ حصہ ہی دیکھ پاتے تھے۔ ان کا انداز بہت اپنائیت بھرا ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا وہ صرف آپ سے ہی مخاطب ہیں۔ سو میں تو بہت زمانے سے ان کی مداح ہوں۔ ان کے متعدد سفر ناموں کا چرچا سن رکھا تھا اور دل میں بہت خواہش بھی تھی ان کو پڑھنے کی۔ اس لیے جب اس سال سالگرہ کے موقع پر پیاری دوست مونا عامر کی طرف سے ان کی کتب موصول ہوئیں تو بے حد خوشی ہوئی۔ پڑھنے کے لیے سب سے پہلے اس کتاب کا انتخاب کیا۔ غار حرا وہ جگہ ہے جہاں جانے کا اشتیاق ہم سب کو ہے۔
.
کتاب کا زیادہ تر حصہ غار حرا کے لیے ہی وقف رکھا گیا ہے۔ مگر شروع کے کچھ ابواب میں بطورِ تحفہ ایسی زیارتوں کا احوال بھی بتایا گیا ہے جن پر مواد عام طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔ ان کی داستان گوئی کے تو ہم معترف ہیں۔ آپ خود کو ان مقامات پر محسوس کریں گے۔ مستنصر صاحب کی قسمت پر اش اش کرنے کا دل چاہتا ہے جو وہاں پہنچ سکے۔
ان کی غار حرا میں رات گزارنے کی خواہش، گھر والوں کا منع کرنا اور بالآخر وہاں تک رسائی بہت دلچسپ کہانی ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس سفر کی روداد لکھتے وقت وہ مبالغہ آرائی یا قصہ گوئی سے دور رہے۔ جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر لکھ دیا۔ پڑھتے وقت آپ یہ بات بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ اس مقام کی ہیبت، وہاں سے محبت، ڈر، سکون اور وجدان۔ آپ خود کو ان کی جگہ پائیں گے۔ ہمارے آقا اس مقام پر آتے تھے۔ وہاں قیام کرتے تھے۔ ان راستوں سے گزرتے تھے۔ اسی مقام سے اس آسمان اور اس منظر کو دیکھتے تھے۔ وہاں جانا قیام کرنا سب کچھ محسوس کرنا بڑی قسمت اور نصیب کی بات ہے۔
.
اس سفر اور قیام کے دوران جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ان کا ذکر بھی موجود ہے۔ لیکن یہ کتاب ایک غار اور ایک انسان کے بیچ کی ہے۔ اس میں کوئی کہانی یا افسانہ نہیں ہے۔ یہ داستان اتنی فسوں خیز ہے کہ کسی اور چیز کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مستنصر صاحب نے حکومتی بے نیازی کا بھی ذکر کیا۔ یہ نایاب نشانیاں اب مٹتی جا رہی ہیں، جس کا افسوس ہوا۔ کیا پتہ جب ہمیں وہاں جانے کا شرف حاصل ہو تو یہ سب زیارتیں نصیب ہوں یا نہیں۔ سو اس سے پہلے یہ کتاب ایک بہترین ذریعہ معلومات ہے۔
تبصرہ از سدرہ جاوید
To Kill A Mockingbird تجزیہ نگار کا گذشتہ تبصرہ