مارکو پولو، پٹہکہ میری پسندیدہ جگہ ہے لیکن پہلی بار وہاں جا کر مزہ نہیں آیا۔ حالاں کہ موسم اچھا تھا، کھانا زبردست تھا اور عملہ بھی خوش اخلاق و مددگار تھا۔ مگر میں بتاتی، بلکہ پڑھواتی ہوں۔
ہم مارکو پولو پہنچے اور مون (بھائی) نے وہیل چیئر احتیاط سے سیڑھیوں سے اتارنا شروع کی۔ اسی اثناء میں ایک ملازم فوراً دوڑا دوڑا مدد کو آیا۔ اس نے ریسٹورنٹ کا زینہ چڑھوانے کے لیے ایک اور ملازم کو ساتھ بھیجا۔ واپسی پہ انتظامیہ کے دو بندے آئے اور وہیل چیئر سیڑھیوں سے اوپر چڑھوائی۔۔۔
میں مارکو پولو میں پیچھے کے بجائے سامنے والی میزوں کو ترجیح دیتی ہوں۔ وہاں سے دریائے نیلم کا مکمل نظارہ مجھے بہت متاثر کرتا ہے۔ لیکن اس وقت کوئی میز خالی نہیں تھی۔ عملہ ہمیں درمیان والی جگہ بٹھانے پر مصر اور مجھے وہاں بیٹھنے کا تصور بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس سے پہلے میں اعتراض جڑتی، کونے والی میز خالی ہو گئی۔ ہم نے فوراً سے پیشتر اس پہ قبضہ کر لیا۔
۔
ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور بیٹھ کر دریا کے نظارے سے لطف اندوز ہونے لگے۔ کھانا حسبِ معمول اچھا تھا اور موسم بھی سہانہ تھا۔ ساگ، پھلیاں، کڑھی، چٹنی، لسی، مکئی کی روٹی اور پراٹھے۔ مزہ ہی آ گیا۔ اب آپ کہیں گے کہ پہلے کہہ رہی تھی کہ مزہ نہیں آیا۔ جب ہم مارکو پولو پہنچے تو وہاں کوئی تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ پورا وقت کانوں میں مختلف آوازیں گونجتی رہیں۔
فلاں نے بے حد عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔۔۔
منیر صاحب کا شکریہ۔۔۔
نذیر صاحب کا شکریہ۔۔۔
منکر نکیر صاحب کا شکریہ۔۔۔
نہیں، مطلب حد نہیں ہو گئی!!! ہم شہر کے ہنگاموں سے بھاگ کر کہیں جائیں۔۔۔ مگر وہاں بھی سکون کی چند گھڑیاں میسر نہ ہوں تو فائدہ؟ میرے خیال میں تقریبات کے انعقاد کے لیے مارکو پولو جیسی جگہیں کسی طور مناسب نہیں ہیں۔
آپ کیا کہتے ہیں دوستو؟
فہمیدہ فرید خان کی ۱۷ جولائی ۲۰۱۹ کی یادداشت