Home » Movie, Drama and Series Reviews » من جوگی | حلالہ | سیاست | مذہب | Mann Jogi

من جوگی | حلالہ | سیاست | مذہب | Mann Jogi

من جوگی

من جوگی

من جوگی | ظفر معراج

من جوگی کی کہانی انتہائی برق رفتار اور دل دہلا دینے والی تھی۔ اس ڈرامے میں بتایا گیا حلالہ کا طریقہ وہ نہیں، جو اب رائج ہو چلا ہے۔

Follow
User Rating: 3.87 ( 1 votes)

من جوگی

تین فریم
تین منظر
اور تین کردار
مستزاد تینوں کے تاثرات

پھر ایک کردار اور نظر آتا ہے جو ایک بت میں جان ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن۔۔۔

اضطراب
کشمکش
بے چینی
انتشار
اور ان کیفیات کو مہمیز کرتے لوازمات۔۔۔
گہرے رنگ اور جاندار موسیقی

ایک آدمی طیش میں ہے۔۔۔
دوسرے کا ہیجان۔۔۔
جب کہ لڑکی اعصابی دباؤ کا شکار لگتی ہے۔۔۔

پھر ایک کردار مزید شامل ہوتا ہے۔ اذان دینے والے کے ہاتھ سے وضو کا لوٹا گرنے اور تیز تیز وضاحت دینے سے سارا فسوں چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے۔

میں منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔ من جوگی ڈرامہ انتہائی خطرناک لگ رہا تھا۔ دیکھنے سے ڈر بھی رہی تھی مگر چھوڑا بھی نہیں جا رہا تھا۔

میں ایسا ڈرامہ دیکھنے چلی تھی جس کی پہلی ہی قسط نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ ظفر معراج اور کاشف نثار نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ اس قدر حساس موضوع، اگر ہماری عوام مشتعل ہو جاتی تو ان کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں تھی۔

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ پاکستان میں اچھے ڈرامے نہیں بنتے۔۔۔ بنتے ہیں، بہت اچھے ڈرامے چلبنتے ہیں بھئی لیکن آپ لوگ صرف چھچھورے ڈرامے دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔
من جوگی کا اسکرپٹ
اس کے فنکار
اداکاری
ہدایت کاری
سیٹ ڈیزائن
لوکیشنز
کپڑے، جیولری، میک اپ، حتٰی کہ موسیقی بھی بے مثال۔۔۔

لیکن نہیں دیکھا نا لوگوں نے…! کیوں کہ اس میں گلیمر کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

من جوگی بہت نظر انداز کیا گیا ڈرامہ ہے بھئی۔۔۔ جس پر بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

اسما عباس سبینہ فاروق کو تیار کر رہی ہوتی ہیں۔ سامنے اس کی شادی کی تصویر دکھائی جاتی ہے۔
مرزا گوہر رشید غصے میں بھرا بیٹھا ہے۔
مولوی صاحب بلال عباس خان کو یوں جانچ رہے ہیں جیسے وہ قربانی کا بکرا ہو۔۔۔
اسما عباس کا سبینہ فاروق کو تیار کر کے گوہر کے سامنے لانا اور اس کا ردِ عمل۔۔۔
یہ سب لوازمات معنی خیز تھے۔ گہرے رنگوں سے اٹی اسکرین اور سنسنی خیز موسیقی، اس معنویت کو ابھار رہے تھے کہ کچھ عجیب ہونے جا رہا ہے۔ مگر کیا؟

سبینہ فاروق کا نکاح ہوتا ہے بلال عباس خان سے اور یوں ان کے نام معلوم ہو جاتے ہیں عالیہ اور ابراہیم۔۔۔ بہترین طریقہ کرداروں سے متعارف کروانے کا۔۔۔
اسما عباس گوہر رشید کو شبیر کہہ کر پکارتی ہیں۔ وہ سیڑھیوں سے جیسے لڑھکتا ہے، یہ اس کی پراگندہ ذہنی کیفیت کا غماز تھا۔

شبیر ابراہیم کے کمرے کے دروازے پر آتا ہے تو عالیہ کے چہرے پر خوشی کا تاثر نظر آتا ہے۔ حقیقت کا ادراک ہوتے ہی اس کی مسکراہٹ بتدریج معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔

مجھے شبیر کی آمد پر حیرت کا جھٹکا لگا تھا کہ عالیہ کی شادی ابراہیم سے ہوئی ہے، حق مہر شبیر کیوں دے رہا ہے؟
پھر اسما عباس کی بات یاد آتی ہے، ”عورت کو اپنا گھر بچانے کے لیے بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ بس ایک رات کاٹ لو۔“ اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ یہ شادی حلالہ کی غرض سے کروائی گئی تھی۔ یہ طریقہ انتہائی غلط ہے۔ میں حیران تھی کہ مولوی صاحب بھی اس فعل میں شریک تھے۔

ابراہیم کی باتوں سے پتہ چلتا ہے، وہ شعور رکھتا ہے۔ وہ رو رو کے کہتا ہے، ”میں جہنم میں جاؤں گا۔ میری اذانیں اور نمازیں میرے منہ پر مار دی جائیں گی۔ یہ غلط ہے لیکن کسی نے میری ایک نہیں سنی۔“ آہ کیا جہالت ہے۔

عالیہ اسے دروازہ بند کرنے کا کہتی ہے تو وہ سٹپٹا جاتا ہے۔ وہ خود اٹھ کے بلب بجھا دیتی ہے۔ جس پر ابراہیم کا جملہ، ”ہمیں اس (حد) سے آگے نہیں جانا چاہیئے۔“ یہ لمحات دونوں کے لیے اعصاب شکن تھے۔

شبیر کی عالیہ سے شادی کے منظر اور سیاسی نعرہ بازی نے اس کا کردار متعارف کروا دیا۔ یہاں ایک اور کردار شامل ہوا، چوہدری زبیر (عدنان ٹیپو) کا جو شبیر کا سیاسی مخالف ہے۔

صبح عالیہ اور ابراہیم بھاگ جاتے ہیں۔ جب وہ سائیکل سے گرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی آتی ہے تو میرا دل اچھل کے حلق میں آ گیا تھا کہ یہ پکڑے جائیں گے۔ مگر اگلے منظر میں دونوں کو بس میں بیٹھے دیکھ کے سکون کا سانس لیا۔

عالیہ بھائی کے گھر جاتی ہے۔ اس کی ساس پہلے ہی اس کی بھابھی سے فون پر بات کر چکی ہوتی ہے۔ عالیہ کے بھائی بھابھی کو تین ماہ دس دن کا سن کے چونک نہیں جانا چاہیئے تھا؟
بھابھی کا کردار اچھا بھلا تھا، اچانک اسے کیا ہوا؟
عثمان شبیر سے بڑا لگ رہا ہے لیکن اسے پائین کہہ کر مخاطب کر رہا۔ یہ کیا چکر ہے بھئی۔

من جوگی میں اسما عباس کی اداکاری زبردست رہی۔۔۔

شبیر: چل، کچھ نہیں ہوا۔
ماں: چھوڑ اس کا ہاتھ، یہ حرام ہو گئی ہے تجھ پہ۔
شبیر: غصے میں کہہ دیا تھا۔
ماں: پیار سے بھی کوئی طلاق دیتا ہے۔
یہ سیاسی بیان نہیں ہے۔ شریعت میں اونچ نیچ نہیں ہو سکتی۔ ادھر کی سرکار کا نہیں، ادھر کی سرکار کا معاملہ ہے۔

عالیہ: عورت تو کوئی برتن ہے نا۔ ایک نے گندہ کر کے دوسرے کو تھما دیا۔ دوسرے نے صاف کر پہلے کو لوٹا دیا۔ میں واپس نہیں جاؤں گی ابراہیم۔۔۔ نبھاؤ یہ ذمہ جو مولوی صاحب نے تم پر تھوپی ہے۔

عالیہ بھائی کے گھر سے بھی ایک عیسائی جوڑے کے پاس چلی جاتی ہے۔ اس کا باپ چرچ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا تھا۔ یہاں وہ غلطی کر گئے۔ مریم بل کے بہانے عثمان کے گھر گئیں اور شبیر کی ماں جیسی گھاگ عورت فوراً سمجھ گئی کہ عالیہ کہاں گئی ہو گی۔
چالاک شبیر نے عطر کی خوشبو سے اندازہ بھی لگا لیا کہ ابراہیم وہیں تھا۔

او نسی نئیں، اپنڑے بندے نال گئی اے۔
یوسف اور مریم کی پنجابی بھئی واہ۔۔۔
یوسف انکل شبیر کے سامنے ڈٹ گئے اور دل جیت لیا۔ مجھے لگا تھا شبیر جیسا اتھرا گھوڑا انہیں گولی مار دے گا مگر شکر ہے ایسا نہیں ہوا۔

اس دوران ابراہیم نے کپڑے بدل لیے تھے اور سر پہ نمازی ٹوپی کے بجائے پی کیپ تھی۔۔۔

شہری کپڑے کیا یوسف انکل کے تھے؟
بس کنڈکٹر ابراہیم سے، ”یہ لیڈیز آپ کے ساتھ ہیں بھائی جان؟“ ہاہاہاہاہاہا

وہ دونوں یوسف انکل کی بیٹی انیتا کے پاس گئے تھے۔ اس نے ہاسٹل کی مالکن بلقیس آنٹی کو ان کی ضمانت دی اور اپنی ملازمت تک داؤ پر لگا دی۔ بلقیس آنٹی نے اپنا فائدہ دیکھ کے انہیں رکھنے کی ہامی بھر لی کیوں کہ عالیہ نے آتے ہی پنکھا ٹھیک کر دیا تھا۔ وہ سخت گیر دکھائی گئی تھیں لیکن اختتام تک موم ہو چکی تھیں۔

مولوی صاحب شبیر کے کہنے پر ابراہیم پر چوری کا مقدمہ درج کرواتے ہیں۔ دوسری جانب زبیر بھی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ابراہیم کے خلاف پرچہ کٹوا دیتا ہے۔

انیتا ابراہیم اور عالیہ کو کھانے پر لے جاتی ہے تو بنٹی وہاں کیسے ٹپک پڑتی ہے؟
یہ منظر کچھ ہضم نہیں ہوا۔

انیتا ابراہیم کو اپنے دفتر میں ملازمت دلواتی ہے۔ وہ خوشی خوشی مٹھائی لے کر آتا ہے مگر عالیہ کا مزاج برہم ہو جاتا ہے۔
انیتا اسے سمجھاتی ہے کہ ابراہیم کو کسی قابل ہونے دو۔ عالیہ کے نہ ماننے پر کہتی ہے، ”تم چودھرانی کے منج سے نیچے اتر ہی سکتیں۔ تمہیں ایسا بندہ چاہیئے جس کے آگے تم ٹکڑے پھینکو۔“ تب عالیہ مان جاتی ہے۔

ہاسٹل کی لڑکیاں ابراہیم اور عالیہ کی مہندی منعقد کرتی ہیں اور اگلے دن ہی پولیس ابراہیم کو پکڑ کے لے جاتی ہے۔

سپاہی: ابراہیم کی بیوی آئی ہے۔
ایس ایچ او: بیوی؟ وہ تو غیر شادی شدہ تھا…! چندے کی اس پیٹی سے کیا کیا نکل رہا ہے۔

شبیر عالیہ کے پاؤں پڑ گیا معافی کے لیے۔۔۔

شبیر: کیا تم نے چوہدری زبیر کے ساتھ مل کے سازش کی ہے؟

عالیہ: ہاں یہ میری سازش ہے۔ پہلے میں نے اپنی طلاق کروائی، ابراہیم کو چپیڑیں مار کے اس سے نکاح کیا، اب نکاح اور طلاق کے ثبوت لے کر تمہیں ورغلا رہی ہوں۔
شبیر: اس سے سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملنا۔
عالیہ: مجھے جو چاہیئے تھا، مل گیا۔

دوسری جانب زبیر اور شبیر نے گٹھ جوڑ کر لیا۔

عالیہ اور ابراہیم مسجد چلے جاتے ہیں۔

اماں: زنانیوں کا کیا ہے وہ تو مردوں کی زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں، جتی کی طرح۔۔۔ ایک جتی کاٹنے لگے تو دوسری بدل لے بندہ، اور جو پسند آ جائے تو دو دو تین تین بھی رکھ سکتا ہے۔
شبیر: جب اپنی ہی جوتی سر پہ لگے نا اماں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

ابراہیم کی اذان سن کے دونوں ماں بیٹا چونک جاتے ہیں۔
اسما عباس جا کے دونوں کو دھمکاتی ہیں لیکن اس مرتبہ ابراہیم چارج سنبھال لیتا ہے۔
شبیر طلاق کا اعلان کرے، ہم چلے جائیں گے۔

زبیر شبیر سے کہتا ہے، گھڑی ہوئی کہانی بناؤ۔ ایسی کہانی جو باقی ساری کہانیوں کو خاموش کر دے۔

بنٹی: جلدی یہاں سے بھاگ جا۔
عالیہ: اللہ کے گھر میں بیٹھی ہوں۔ عزت ذلت جو بھی ہو، اس کی مرضی۔۔۔

شبیر: ایک قبر کھود دی ہے، کسی ایک کو تو دفن ہونا ہو گا۔ مجھے یا عالیہ کو، یہ فیصلہ آپ کریں گی اماں۔

عالیہ: کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں شبیر کو جانتی ہوں۔
ابراہیم: آپ فکر نہ کریں جی، آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ خود مر جاؤں گا لیکن آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔
عالیہ: مجھے خود سے الگ رکھ کے کیوں سوچتے ہو۔ جینا ہے تو ساتھ جئیں گے، مرنا ہے تو مر جائیں گے اکٹھے۔
ابراہیم: مجبوری ہے جی، آپ کے مرنے کا نہیں سوچ سکتا۔

اماں یعنی اسما عباس لوگوں کو مشتعل کر دیتی ہیں۔ سب مسجد میں جا کے ہلڑ بازی کرتے ہیں۔ ان میں کچھ ابراہیم اور عالیہ کو باہر گھسیٹ لاتے ہیں۔ سب کے تاثرات بہت جنونی تھے۔ مجھے سچ مچ خوف آیا تھا کہ وہ ان دونوں کو جان سے مار دیں گے۔

مولوی صاحب کا لاؤڈ اسپیکر سے لوگوں سے مخاطب ہونا بہت پراثر تھا۔ انہوں نے حلالہ کے مسئلے کی صراحت کر دی۔ شکر ہے ہجوم منتشر ہو گیا ورنہ جس طرح سے ان کے جذبات بھڑکائے گئے تھے، وہ سنگسار کیے بغیر نہ ٹلتے۔
پولیس بھی بر وقت پہنچ گئی تھی۔

زبیر ہوا کا رخ بدلتے ہی کھسک گیا۔ سارے سیاست دانوں کا یہی وتیرہ ہوتا ہے۔
اماں اور شبیر دروازوں کے آگے چیزیں رکھنے لگے مبادا ہجوم اندر گھس کے انہیں نہ مار دے۔

جب ایس ایچ او کہتا ہے کہ ٹک ٹوک بنایا کرو، اور پھر جاتے جاتے کہتا ہے کہ اچھا گاتے ہو، گاتے رہنا تو مجھے اس ابراہیم کا مستقبل کا خاکہ سمجھ آیا۔۔۔ گو کہ اختتام مبہم رکھا گیا ہے۔ یعنی جس کو جو سمجھنا ہے سمجھ لے۔۔۔ مگر میں مخمصے میں ہوں کہ ابراہیم مؤذن ہی رہے گا یا گانے کی طرف جائے گا۔

حلالہ کے حساس موضوع پر بنا من جوگی رائٹر اور ہدایت کار نے بخوبی نبھا دیا۔ کئی جگہ لگا… گیا، بندہ ختم۔۔۔ لیکن صورت حال کو قابو کر لیا گیا۔

حلالہ کا تذکرہ اپنی جگہ لیکن من جوگی میں اس کے علاوہ بھی کئی حساس موضوعات کا احاطہ کیا گیا جیسے بغیر تحقیق کسی بات پر یقین کر لینا۔ پہلے ایک مشتعل ہجوم نے چرچ پر حملہ کیا تھا، جس میں عالیہ کا باپ شہید ہوا تھا۔ اس مرتبہ مسجد میں عالیہ اور ابراہیم کو سنگسار کرنے پہنچ گیا۔ مذہبی جنونیت اور حیوانیت ہماری جڑوں میں سرایت کر گئی ہے۔ پھر چاہے مسجد ہو چرچ ہو یا مندر، ان مذہبی جنونیوں نے کچھ نہیں چھوڑنا۔۔۔ سب تباہ و برباد کر کے دم لینا ہے۔
من جوگی میں یہ بھی دکھایا گیا کہ کیسے سیاست میں مفادات بدلنے سے وفاداریاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔


مرزا گوہر رشید کا کردار اس قدر جاندار تھا کہ اس نے بلال عباس خان کے کردار کو پوری طرح ابھرنے ہی نہیں دیا۔ غضب کے صوتی تاثرات اور صورت حال کے ساتھ بدلتا بہترین لہجہ۔

بلال عباس خان نے مکالموں کی کمی کو پراثر تاثر دے کے پورا کیا۔ ان کا حلیہ، لہجہ اور ظاہری حالت شاندار تھے۔

میرے خیال میں سبین فاروق گلیمرس کردار میں اچھی نہیں لگیں گی۔ انہوں نے بغیر میک اپ کے حقیقت سے قریب ترین اداکاری کی۔

میرے نزدیک اس ڈرامے کی ہیرو انیتا تھی۔ بہترین اور لاجواب کردار۔۔۔۔ ان کے والدین کا کردار ادا کرنے والا مسیحی جوڑا بھی پیارا تھا۔
اس طرح کے مزید کردار لکھے جانے چاہیئں۔ اقلیتیں بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

عدنان ٹیپو مولوی صاحب کے کردار میں پوری طرح ڈھل گئے تھے۔

مجموعی طور پر سب نے اپنے کام سے خوب انصاف کیا، حتٰی کہ ہجوم کے ایک ایک فرد کے تاثرات غضب ناک تھے۔

من جوگی کا گانا ساحر علی بگا نے لکھا اور سبین فاروق کے ساتھ گایا۔ مزے دار دھیما اور خوبصورت۔۔۔

نو اقساط پر مشتمل من جوگی کی کہانی انتہائی برق رفتار اور دل دہلا دینے والی تھی۔ اس ڈرامے نے لڑکیوں اور مردوں کو بھی سمجھایا گیا ہے کہ حلالہ کا طریقہ وہ نہیں، جو اب رائج ہو چلا ہے۔ ملک میں کئی حلالہ سینٹر بھی کھلے عام کام کر رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی، ان کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی مزید تحریروں اور ڈراموں کے ذریعے آگاہی پیدا کی جائے اور عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔

فہمیدہ فرید خان

اکتوبر ۳، ۲۰۲۴ء بروزِ جمعرات

#mannjogi

Previous review Homo Deus | Yuval Noah Harari

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *