ناول: کرب آشنائی
ناول نگار: طاہر جاوید مغل
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
میں جاسوسی گروپ میں جدھر جاتی مغل صاحب ہی چھائے ہوئے نظر آتے تھے۔ تو جناب میں نے سوچا ان کو پڑھنا چاہیئے۔ ان کا پہلا ناول شروع کیا۔ غالباً شہرِ محبت نام تھا۔۔۔ اس میں ہیرو صاحب کے بیوی بچے تھے اور ہیرو صاحب تھے کہ آدھی عمر کی لڑکی کے عشق میں گرفتار۔۔۔ وہ پہلا ناول تھا جو میں آدھا پڑھ پائی تھی۔ اس ناول سے میرا ایک ریکارڈ ٹوٹا، ایک بنا۔۔۔ یعنی اس ناول سے مجھے علم ہوا کہ میں کچھ ادھورا بھی چھوڑ سکتی ہوں۔ پھر کسی نے کربِ آشنائی سے آشنائی کروا دی اور چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
.
ناول کی کہانی دو دوستوں کے منظر سے شروع ہوئی۔ وہ کسی بیرونی ملک گھومنے کے خواہش آرزو مند تھے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ان کا منصوبہ ہمیشہ ناکام ہو جاتا تھا۔ اس ناول کا ہیرو شاداب ایم بی بی ایس کا آخری پیپر دے کر باہر نکلا تھا۔ آگے اس کا دوست اکمل سفری دستاویزات لے کر کھڑا تھا۔ اور وہ بینکاک پہنچ گئے۔ ان کا سفر پندرہ دن پر محیط تھا۔
اچھا جی اب ہوا یہ ہے کہ شاداب اور اس کے ”بچپن“ کے دوست اکمل سے ان ہو گئی۔ اچانک ان دونوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ ہم مزاج نہیں ہیں۔ اکمل بینکاک کی حسیناؤں کا ساتھ چاہتا تھا جب کہ شاداب شہر گھومنا چاہتا تھا۔ انجام کار اکمل خط لکھ کر آخری دن ملنے کا کہہ کر کہیں نکل گیا۔ اکمل کا پتہ صاف ہونے کے بعد شاداب کھل کر کھیلتا ہے اور جا ملتا ہے سون سے جو ایک کال گرل تھی۔ ہاں جی یہی ہو رہا تھا اس ناول میں۔
.
سون کی تعریف میں مغل صاحب نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔۔۔ وہ کانچ کی گڑیا تھی، بے چاری معصوم، پری صورت، اپسرا وغیرہ وغیرہ۔ شاداب ہوٹل نیرو کیڈرو میں ٹھہرا ہوا تھا، جہاں سون اکثر جاتی تھی۔ اس نے شاداب کو گائیڈ بننے کی پیشکش کی جو ظاہر ہے ہیرو کو دل و جان سے قبول تھی۔ حسنِ اتفاق سے ایک کال گرل اور شاداب کا رشتہ گائیڈ اور ٹورسٹ تک محدود رہا۔۔۔ لیکن کیا واقعی ناول میں ایسا ہوا تھا؟؟
نہیں جناب! ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔ بات بہکنے اور۔۔۔ تک جا پہنچی تھی پھر انہوں نے تھوڑا تھوڑا سکھ کا ساہ لیا اور ایک نادیدہ بندھن میں بندھ گئے۔ پھر شاداب پاکستان واپس آ گیا۔ یہاں ایک نیا قصہ شروع ہو گیا۔ اب وہ ڈاکٹر رخشی کے آجو باجو پھرنے لگا جو بہت نیک دل تھی۔ نوبت شادی تک پہنچ گئی۔ ناول کے اس حصے میں محیرالعقول واقعات کی بھرمار تھی۔
۔
کرتے کرتے پانچ سال بیت گئے۔ ڈاکٹر شاداب ایک بار پھر سے بینکاک پہنچ چکا تھا لیکن سون غائب تھی۔ سون کی ڈھنڈیا مچ گئی۔ یہاں بھی انے وا مافوق الفطرت واقعات پیش آئے۔ ڈاکٹر شاداب نے سفری دستاویزات اور قوانین کی ایسی تیسی کر دی۔ مغل صاحب نے قارئین کو اندھا، بہرہ اور گونگا سمجھ لیا تھا۔ خیر ان کے پنکھے بھی تو اس ناول پر مرے جاتے ہیں۔
بیچ میں سون کا شوہر بھی نکل آیا کم بخت۔ کچھ پنڈتوں کے قصے اور قضیے تھے۔ پھر کڑی تپسیا کے بعد جب سون دریافت کی گئی تو اسے انتہائی بھونڈے طریقے سے انجام تک پہنچا دیا گیا۔
.
میری رائے میں مغل صاحب کا علیم الحق حقی صاحب کے معیار تک پہنچنا مشکل ہے۔ مغل صاحب کے دو ناول پڑھنے کے بعد میرا خیال ہے کہ یا تو میرا ذوق خراب ہے یا مغل صاحب کے پنکھوں کا۔۔۔
بتاریخ ۴ جنوری ۲۰۲۰
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ غدار از کرشن چندر