پاکستان تیسری دنیا کے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ملک معرض وجود میں آنے کے بعد سے لاتعداد مسائل کے انبار میں گھرا ہوا ہے۔ غریب طبقہ پچھلے کئی برسوں سے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، بجلی اور گیس جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ ملک کی اشرافیہ عوام کے مسائل سے بے پروا عیش و عشرت سے بھر پور شاہانہ وی آئی پی طرز زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے۔
وی آئی کلچر دراصل ایک خاص طبقے کی شاہانہ طرز زندگی کا انگریزی نام ہے۔ اسے پاکستان کے ایک طبقے نے اپنا رکھا ہے۔ پچھلے چھہتر سالوں میں یہ کلچر دھیرے دھیرے اس ملک کی جڑوں میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ اب یہ ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کا سدِ باب ناگزیر ہے۔ وی آئی پی یا شاہانہ طرز زندگی اگر چہ بہت پرانی ہے۔ ہزار ہا سال سے اشرافیہ اس کے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔
۔
اگر ماضی کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو بیتے وقتوں کی گرد سے جھانکتی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان سے امیر و غریب کے درمیان طبقاتی فرق واضح نظر آتا ہے۔ ماضی میں امراء کے انداز و اطوار، پر تعیش محلات، شاہی سواریاں اور بے جا اسراف طبقاتی فرق کا غماز تھا۔ یہ آج سے کئی سو برس پہلے بھی موجود تھا۔
پرانے وقتوں میں شہنشاہ کی سواری باد بہاری عوامی راستوں سے گزرتی تھی۔ اس سے پہلے باقاعدہ صدائیں بلند کی جاتیں یا بگل بجائے جاتے تھے۔ تاکہ رعایا کو بادشاہ سلامت کی آمد سے باخبر کیا جا سکے۔ وہ راستے کے دونوں اطراف کھڑے ہو جاتے تھے۔ جب بادشاہ اپنے قافلے کے ہمراہ پوری شان و کروفر سے ہاتھی یا گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرتے۔۔۔ تو لوگ تعزیماً کورنش بجا لایا کرتے تھے۔
۔
دھیرے دھیرے وقت بدلا اور زمانہ بادشاہت سے نکل کر جدیدیت کے راستے پر گامزن ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں بادشاہت کے بعد انگریز راج نافذ ہوا۔ تب بھی وی آئی پی کلچر امراء اور اشرافیہ کی زندگیوں کا حصہ تھا۔ انگریز صاحب بہادر اور ان کی گوری بیگمات بڑے بڑے عالیشان محلات نما گھروں میں رہائش رکھتے تھے۔ وہ خوبصورت اور قیمتی بگھیوں پر نہایت شان و کروفر کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ بے چارے غریب عوام ان کی یہ شان حسرت سے تکتے رہتے۔ انگریز حکمرانی کے سو سال مکمل کرنے کے بعد برصغیر کو الوداع کہہ کر انگلستان واپس روانہ ہوا۔ لیکن وہ پیچھے غلامانہ ذہنیت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جا رہا تھا جس کے اثرات آج تک قائم و دائم ہیں۔
۔
گورے برصغیر کی عوام کو ظاہری غلامی سے آزاد کر کے چلے گئے تھے۔ لیکن ذہنی غلامی کی صورت میں طبقاتی فرق پیچھے چھوڑ گئے۔ اسے برصغیر پاک و ہند کے اشرافیہ نے حق سے اپنا لیا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی وی آئی پی کلچر کی صورت ملک کے حکمرانوں کی طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ آج تک پاکستان کے اشرافیہ اور حکمران اس طرز زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
جغرافیائی سرحدوں میں لکیر کھینچنے والے قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے اہم مقصد ملک کو اسلام کے اصولوں پر گامزن کرنا تھا۔ تاکہ مسلمانان ہند ایک ایسے ملک میں امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کر سکیں۔ جہاں نہ تو کوئی طبقاتی طور پر برتر ہو اور نہ ہی کسی کو کمتر سمجھا جائے۔ بلکہ سب برابری کی سطح پر خوشحال زندگیاں گزاریں۔ مگر یہ ہو نہیں سکا۔
قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان بننے کے بعد اتنی مہلت نہ مل سکی کہ وہ اس ملک کو تناور درخت بنتا دیکھ سکتے۔ جس کا بیج انہوں نےاپنے رفقاء کے ساتھ مل کر بویا تھا۔ لیکن جب تک قائداعظم زندہ رہے انہوں نے سادگی سے حکمرانی قائم کرنے کی بہترین مثال قائم کی۔ سرکاری وسائل کو سرکاری کاموں کے لیے ہی وقف رکھ کر نہایت احتیاط سے استعمال کرنے کا درس دیا تھا۔
۔
قائد کے بارے میں ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ بیماری میں وہ زیارت سے کراچی منتقل ہوئے۔۔۔ تب بھی وہ پروٹوکول کے بغیر ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس جا رہے تھے۔ راستے میں ان کی ایمبولینس خراب ہو گئی۔ اسی ایمبولینس میں محترمہ فاطمہ جناح اور بانیٔ پاکستان خود موجود تھے۔ انہوں نے دوسری ایمبولینس کےانتظار میں تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے شدید گرمی میں سڑک پر تنہا گزارے تھے۔ بانئ پاکستان کے انتقال کے بعد ان کے ساتھیوں نے پاکستان کو سادگی کا گہوارہ بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ لیکن ان کے بعد آنے والے پاکستانی حکمرانوں نے قائداعظم کے اصول، ہدایات اور مثالیں ہوا میں اڑا دیں۔ ملک کے سرکاری وسائل کو بے دردی سے اپنی ذات، خاندان بلکہ عزیزوں اور دوستوں پر لٹایا۔ انہوں نے اقربا پروری کی بدترین مثالیں قائم کیں۔
دوسری طرف انگریز جب برصغیر میں شاہانہ زندگی گزار کر اپنے وطن انگلستان واپس پہنچا۔۔۔ ان کا سب سے پہلا کام طبقاتی تقسیم کو مکمل طور پر ختم کر کے مساوات قائم کرنے کا تھا۔ انہوں نے اپنے معاشرے میں سادگی کو اپنانے کے ساتھ امیر اور غریب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ سب کے لیے اصول و ضوابط یکساں مقرر کیے گئے۔ کسی کو عہدے، دولت اور رتبے کے لحاظ سے فوقیت اور سہولیات نہیں دی گئیں۔ انگریزوں نے اپنے معاشرے کو حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بنا دیا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
پہلی دنیا کے غیر مسلم معاشروں نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور مساوی حقوق کے لیے اسلامی معاشرتی اصول اپنائے۔ وہ اصول جنہیں اپنانے کا حکم اسلام نے مسلمان معاشروں کو دیا تھا۔
۔
تاریخ گواہ ہے کہ انگلستان کی معاشرتی ترقی اور کامیابی کا راز امیر و غریب کے فرق کو مٹا کر ایک مثالی معاشرہ بنانا تھا۔ ان کی کامیابی عوام کو یکساں حقوق فراہم کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ البتہ برصغیر پر حکومت کر کے واپس جانے والا شاہی خاندان خود کو ان سب اصولوں سے مبرا سمجھتا رہا۔ وہ کسی نہ کسی حوالے سے آج تک اسی شاہانہ روش پر قائم چلا آرہا ہے۔
رفتہ رفتہ وقت آگے بڑھا۔ انگلستان کا معاشرہ اپنے انہی اصولوں کی بنا پر کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ پہلی دنیا کے ممالک اپنے عوام کے لیے مساوات، انصاف، قانون کی بالا دستی, معاشی استحکام اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کی بنا پر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہاں وی آئی کلچر کو نہایت ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریا سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں وی آئی پی کلچر کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ عوامی جگہوں پر جا کر ان ممالک کے صدور، وزرائے اعظم اور وزراء عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں۔ وہ ضرورت کے وقت قطار میں کھڑے رہ کر اپنی باری کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی عہدے دار کے آنے یا جانے کے وقت آگے پیچھے گاڑیوں کا طویل قافلہ ہوتا۔ نہ ہی سیکیورٹی کے نام پر سرکاری گارڈز کا جھرمٹ ساتھ چلتا ہے۔
آج اسلام کے نام پر بنائے گئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرے اور حکمرانوں کا سادگی سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نظر نہیں آتا۔ سڑکوں پر سائرن بجاتی قطار در قطار بڑی بڑی گاڑیاں، سیکیورٹی کے نام پر گارڈز کا جھرمٹ اور گھنٹوں وی آئی پی نقل و حرکت کے انتظار میں بے بسی کی تصویر بنی بے چاری عوام۔
۔
پاکستان میں یہ کلچر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ وی آئی پی نقل و حرکت کے دوران ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں مریض دم توڑ جاتا ہے۔ کہیں حاملہ عورت اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بچے کو جنم دے دیتی ہے۔ کہیں ہوائی اڈوں اور اسپتالوں میں وی آئی پی لاؤنج اور کمرے عوام کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس ملک میں امراء کا قطار میں کھڑے ہونا کمتری اور سفارش کے ذریعے کام کروانا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ اشرافیہ اور اونچے طبقے کو صرف وی آئی پی نہیں بلکہ وی وی آئی پی جیسے الفاظ اور پروٹوکول دیا جاتا ہے۔
اسلام کے نام پر بنائے گئے پاکستان کے حکمرانوں کے رہنے سہنے کا انداز اسلام کے اصولوں کے بالکل برعکس اور سادگی سے نہایت دور نظر آتا ہے۔ امیر اور غریب کے واضح فرق کے ساتھ ملک کے حکمران عوامی جگہوں اور دیگر مقامات پر وی آئی پی پروٹوکول کے مزے لوٹتے پائے جاتے ہیں۔ ملک میں ہر طرف سفارش، رشوت، کرپشن، اقربا پروری، بے ایمانی اور مہنگائی کا بازار گرم ہے۔ عوام ان تمام مسائل کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے۔ ایسے میں حکمران اور اشرافیہ کا وی آئی پی طرز حکومت اور زندگی غریب عوام کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہے۔ اس کلچر کا خاتمہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
زینب ادریس ڈار کا گزشتہ تبصرہ خالی آسمان