Home » Movie, Drama and Series Reviews » کیا شرجینہ مر جائے گی؟ کبھی میں کبھی تم | Kabhi Main Kabhi Tum

کیا شرجینہ مر جائے گی؟ کبھی میں کبھی تم | Kabhi Main Kabhi Tum

کبھی میں کبھی تم

کبھی میں کبھی تم

قسط نمبر ۳۰ - ۳۱

کیا شرجینہ مر جائے گی؟ ہر کوئی یہ پوچھ رہا ہے لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا تاہم ہو سکتا ہے دونوں اپنے جنون میں اپنا بچہ کھو دیں۔

Follow
User Rating: 4.36 ( 1 votes)

کیا شرجینہ مر جائے گی؟

کبھی میں کبھی تم

قسط نمبر ۳۱/۳۰

تیسویں قسط کا آغاز مصطفٰی کی چڑچڑاہٹ سے ہوا تھا۔ مجھے لگ رہا ہے کہ دونوں کے رویے انتہاء پر ہیں۔ کچھ جگہ شرجینہ درست ہے اور کہیں مصطفٰی۔۔۔

شرجینہ اپنے ماں باپ کے گھر جانے پر راضی نہیں۔ ماں باپ اس کے گھر نہیں آ رہے۔ سسرال سے کوئی رابطہ نہیں تو کم از کم محلے داروں سے ہی تعلقات رکھ لیں۔ محلے کی آنٹیاں دیکھ بھال کر لیں گی اور ضرورت پڑنے پر اسپتال بھی لے جائیں گی۔ گو کہ یہ امکان موجود ہے کہ وہ نجی معاملات پر بھی غور کریں گی۔ لیکن کیا شرجینہ کا ایسی حالت میں تنہا رہنا درست ہے؟

مصطفٰی اسے والدین کے گھر جانے کا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ وہ وعدہ کر چکا تھا کہ وہاں جانے کا نہیں کہے گا۔ شاید شرجینہ والدین کو اس لیے نہیں بلانا چاہتی کہ ایک اور جرم مصطفٰی کے کھاتے میں درج ہو جائے گا۔ مگر ہر صورت میں مرتضٰی انکل نے مصطفٰی کو ہی قصوروار ٹھہرانا ہے۔ سلمٰی آنٹی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں تو نازوں پلی بیٹی کے ابا جی کیا صرف طعنہ زنی کرنے کے لیے ہیں؟ انہوں نے ایک بار کے علاوہ بیٹی کے گھر میں جھانکا ہے کہ مصطفٰی نے کیا کیا کچھ کر چکا ہے۔ کیا شرجینہ نے ایک بار بھی ماں باپ کو کیوں بتایا کہ مصطفٰی مالی طور پر کمزور نہیں رہا۔۔۔ مجھے تو اس بات پر بھی بڑی تپ ہے۔

شرجینہ کو شروع میں جتنا مضبوط دکھایا تھا، اب وہ اتنا ہی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ گو کہ وہ مصطفٰی پر مکمل انحصار نہیں کر رہی لیکن اعصابی طور پر وہ ٹوٹ چکی ہے۔ اگر مصطفٰی اسے وقت نہیں دے پا رہا تو والدین کے گھر چلی جاتی یا بہن کو بلا لیتی۔ مگر نہیں، مرتی مر جائے گی لیکن سوائے مصطفٰی کے کسی کو کال نہیں کرے گی۔ تنہا بیٹھ کر روئے پیٹے گی مگر اپنے ماں باپ کو بھی نہیں بتائے گی کہ مصطفٰی گھر پر نہیں ہے اور میری طبیعت خراب ہے۔ ایمبولینس نہیں بلائے گی، یہاں تک کہ باہر نکل کے ہمسایوں سے بھی مدد نہیں مانگے گی۔ دو زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔

مانا ایسی حالت میں بیوی کو بس شوہر اور اس کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے لیکن ساتھ میسر نہ ہو تو کیا شرجینہ کو اس کا کوئی حل نہیں نکالنا چاہیئے؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ حمل ساری سمجھداری نگل لے۔

دونوں اپنی جگہ پر صحیح ہیں، اور دونوں دوسرے کے حساب سے غلط ہیں۔ شرجینہ کو آگے چل کر اندازہ ہو جائے گا کہ زندگی گزارنے کے لیے پیسہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مصطفٰی گیم کی وجہ سے چڑچڑا ہو رہا ہے۔ دفتر میں بھی سب کے ساتھ بری طرح پیش آ رہا ہے۔ اس کے اندر ناکامی کا خوف پھن پھیلائے کھڑا۔ وہ حسرت و یاس کی تصویر بنا پھرتا ہے۔

دوسری جانب وہ غلطی کر رہا ہے۔ شرجینہ ماں بننے والی ہے۔ وہ اکیلی ہوتی ہے، کوئی بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب تھی لیکن مصطفٰی پھر بھی دفتر چلا گیا اور میں ہک دک رہ گئی تھی۔ پیسہ کمانا ضروری ہے مگر کتنا؟ یہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ رات بارہ بجے گھر آیا۔ اسے پتہ ہے بیوی اکیلی گھر ہے، کوئی ایمرجنسی ہو سکتی ہے. اس وقت اسے کم پیسوں پر سمجھوتہ کر لینا چاہیئے. گیم بن چکی ہے، کام بھی چل پڑے گا ان شاءاللہ۔۔۔ اتنا سڑیل مصطفٰی اچھا نہیں لگ رہا۔ اسے کیا شرجینہ کو تھوڑا وقت نہیں دینا چاہیئے۔

جب ان دو کرداروں کی بات ہوتی ہے تو میں مصطفٰی کو زیادہ توجہ دینے پر مجبور ہو جاتی ہوں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

شرجینہ اپنے والدین کی لاڈلی چہیتی رہی ہے۔ اسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ مصطفٰی سے شادی کے بعد اس نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیا، جس سے ہماری توقعات بڑھ گئیں کہ وہ آئندہ بھی مصطفٰی کے ساتھ کھڑی ہو گی۔

دوسری طرف مصطفٰی بچپن سے عدمِ توجہ کا شکار رہا ہے۔ نکھٹو، نکما اور ڈھیٹ کے القابات سنتے سنتے بڑا ہوا۔ دوست بھی اسی جیسے گیمنگ کے شوقین تھے تو یہ ٹھپہ مزید گہرا ہو گیا۔ وہ کماتا تو تھا لیکن ذرائع آمدن گھر والوں سے مخفی رکھتا تھا۔ اس کا خیال درست تھا کہ گھر والے یقین نہیں کریں گے کہ وہ کچھ کما بھی سکتا ہے۔شادی کے بعد وہ شرجینہ کی وجہ سے بدلنا شروع ہوا۔ پہلی ملازمت ملی تو پہلی تنخواہ ملی اور ساتھ ہی ابا کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ عدیل نہ آتا تو اس کی موٹر بائیک وغیرہ بھی بک جاتی۔ ابا ٹھیک یو کے آئے تو چوری کا الزام لگ گیا اور وہ بے گھر ہو گیا۔ گیم بنائی تو جوزف لے اڑا۔۔۔ دوبارہ گیم بنائی تو وہ چل نہیں رہی۔۔۔

مطلب ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری مصیبت اس کے سر پڑتی رہی۔۔۔ ایک بندہ کس حد تک برداشت کر سکتا ہے؟

عورتیں حساس ہوتی ہیں تو کیا مردوں کے اندر جذبات نہیں ہوتے؟

جوزف نے دھوکہ دیا تو مصطفٰی کے اندر سارے احساسات مر گئے۔ اگر کوئی احساس زندہ رہا تو صرف بے وقعتی کا۔۔۔ اس میں اب کوئی حس نہیں بچی تھی۔ اس کے ذہن تک شعور کی رسائی کا رستہ بند ہو گیا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے پرے وہ ایک روبوٹ میں ڈھل گیا۔ ایسے میں انسان کو کچھ بھی سمجھانے کی کوشش کریں، وہ نہیں سمجھے گا۔

مصطفٰی کو دانش صدیقی ملا تو وہ اس پر بھی مکمل بھروسہ نہیں کر پا رہا۔ گو کہ اس مرتبہ اس کے تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں۔

اس وقت دانش صدیقی واحد بندہ ہے جو مصطفٰی کو سمجھ رہا ہے۔ وہ اسے پیار سے سمجھاتا ہے اور غصہ بھی نہیں ہوتا۔ جب وہ اسے شرجینہ کو بتانے کا پوچھتا ہے تو مصطفٰی کے جواب سے خوشی ہوئی مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ویسے ان کے دفتر کا ماحول زبردست ہے۔ سب دوستانہ انداز میں بات کرتے ہیں۔ ارے ہاں یہ جو نیا بزنس پارٹنر آیا ہے یہ کس کا رشتہ دار ہے بھلا۔۔۔ اب بھی سب تکے لگائیں نا ہاہاہاہاہاہا

دو لاکھ کمانے کے باوجود وہ مزید پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ ڈھیر سارا پیسہ۔۔۔ وہ شرجینہ سے کہتا ہے کہ اس کے لیے کمانا چاہتا ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ شرجینہ تو کم پیسوں کے باوجود اس کے ساتھ خوش تھی۔

اب بات اس کی انا کی ہے۔۔۔

بات اس کی عزت کی ہے۔۔۔

اس کے پندار کی ہے۔۔۔

اب مصطفٰی خود کو ثابت کر کے دکھانا چاہتا ہے کہ وہ نکما، نکھٹو اور ناکارہ نہیں ہے۔

بالآخر مصطفٰی نے وہ حاصل کر لیا، جو وہ چاہتا تھا۔ سب پوچھ رہے ہیں کیا شرجینہ مر جائے گی؟ مجھے ایسا نہیں لگتا تاہم ہو سکتا ہے دونوں اپنے جنون میں اپنا بچہ کھو دیں۔

جی ہاں، اس وقت دونوں جنونی ہو رہے ہیں۔ ایک کو دولت حاصل کرنے کا جنون ہے اور دوسرے کو توجہ حاصل کرنے کا۔ انتہاء کسی بھی جذبے کی ہو، خطرناک ہوتی ہے۔

رباب اور عدیل کی کہانی اختتام پذیر ہونے والی ہے۔ عدیل رباب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کا ہر قدم الٹا پڑ رہا ہے۔رباب پیسوں کے دھوکے کو معاف کرنے کو تیار تھی لیکن نتاشا کے ساتھ معاشقے نے اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا دیا ہے۔ اب رباب عدیل کو جیل بھجوائے گی اور اس کے ماں باپ بے گھر ہو جائیں گے۔ افتخار انکل اور شگفتہ آنٹی کہاں جائیں گے؟ مصطفٰی کو کیسے پتہ چلے گا؟

نتاشا نے خوبصورت مرد کے چکر میں اپنا گھر برباد کر لیا ہے۔ مجھے اس سے ذرا بھر ہمدردی نہیں لیکن سلمان کا سوچ کے دل دکھ گیا۔ جو جھمکا رباب کو ملا تھا، وہ بھی سلمان نے اس کے لیے خصوصی طور پر بنوایا تھا۔ عدیل سے نہ مل پانے کے غم میں شاید اسی کے منھ پر مار گئی تھی۔ بڑی بد قسمت ہوتی ہیں نتاشا جیسی عورتیں، جو ظاہری خوبصورتی پر مر مٹ کر گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی۔۔۔

فہمیدہ فرید خان

اکتوبر ۲۴، ۲۰۲۴ بروزِ جمعرات

گزشتہ تجزیہ: مصطفٰی اور شرجینہ کی تلخ کلامی

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *