ہنزہ داستان
مستنصر حسین تارڑ
مستنصر حسین سے تعارف تو اپنے بچپن سے ہے۔ وہ پی ٹی وی پر مارننگ شو کرتے تھے اور خود کو بچوں کا چاچا کہتے تھے۔ ہم اسکول جانے سے پہلے کچھ منٹ ان کا پروگرام بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ کچھ بچپن کی سادگی تھی اور کچھ ان کا دل آویز انداز کہ لگتا تھا وہ ہم سے ہی مخاطب ہیں۔ ان کے سفر ناموں کی بہت دھوم سن رکھی تھی مگر ک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک دوست مونا عامر نے میری سالگرہ پر ان کی کچھ کتب تحفے میں بھیج کر یہ شوق پورا کیا۔ جب انہیں پڑھا تو بہت اچھا لگا۔ ہنزہ داستان کا سن اشاعت مجھے معلوم نہیں۔ کتاب پر ٢٠١٨ درج ہے مگر پڑھتے وقت محسوس ہوا کہ یہ سفرنامہ شاید اس سے پہلے لکھا گیا تھا۔
~
ہنزہ سے تعارف بھی پی ٹی وی کے دور کا ہے۔ وہاں ایک ٹریولاگ پروگرام آتا تھا۔ اس میں ہنزہ کی سیر کروائی گئی تھی۔ میں تب سے وہاں جانے کی خواہش مند ہوں۔ اسکردو گلگت میں دیکھ چکی ہوں۔ مگر ہنزہ جانے کی خواہش ابھی تک ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ کتاب میرے لٸے خاص ہے۔
چاچا جی نے ہنزہ داستان میں بہت تفصیلی روداد لکھی ہے۔ خواہ وہ سفر کے خوفناک مراحل ہوں، وہاں کے لوگوں کے متعلق مشاہدات ہوں یا مقامات کی منظر نگاری ہو۔ سب کچھ آنکھوں دیکھا محسوس ہوتا ہے۔
اکثر مقامات پر تاریخی اوراق بھی سامنے آئے۔ کچھ غیر ملکی سیاحوں کی کتب اور ہنزہ کی مدح سرائی بھی بیان کی گئی جس نے وہاں کی کشش کو اور بڑھا دیا۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتب پڑھتے ہوئے ایک بات مجھے بہت متاثر کرتی ہے۔ وہ ہے ان کے ساتھ پیش آنے والے حسین اتفاقات۔۔۔کبھی ان کو مخلص لوگ مل جاتے ہیں۔ کبھی وہ ایسے مقامات تک پہنچ جاتے ہیں جن کا ہم نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ مقامی لوگوں کی محبت اور مہمان نوازی پڑھ کر فخر ہوا۔ ہنزہ کے چیدہ چیدہ مقامات کی سیر نے بہت لطف دیا۔
~
ایک فکر بھی دل کو لاحق ہوٸ کہ آج کل تو ہر طرف کمرشلزم کا زمانہ ہے۔ جنگلات بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں جس سے علاقائی حسن اور موسم پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ لوگوں کے رویے بھی مادیت پسند ہو چکے ہیں۔ جب ہم وہاں جائیں گے تو سب کچھ ویسا ہی ہو گا جیسا چاچا جی نے بتایا؟ خاص طور ہنزہ کے لوگوں کا جو نقشہ اس کتاب میں کھینچا گیا ہے کیا وہ واقعی اتنے متاثر کن ہیں؟ جو لوگ حال ہی میں ہنزہ کا سفر کر کے آئے ہیں اپنی رائے ضرور دیں۔
تبصرہ نگار: سدرہ جاوید
گزشتہ تبصرہ پڑھیں۔