ہنگامی نگارشات
حصہ اوّل
یوں تو لکھنے کا آغاز ہم نے اردو سے ہی کیا تھا مگر غمِ دوراں کی گھمن گھمیریوں نے ہمیں انگریزی کی بھول بھلیوں میں لا پٹخا۔ ہمیں اپنی سدھ بدھ کھو کر چار و ناچار اسی بدیسی زبان کے دامنِ دریدہ میں پناہ لینا پڑی۔
~
لیکن اصل قصہ کچھ اور ہے صاحبو۔۔۔
اس سارے فساد کی جڑ و نقطہَ ماسکہ اسماء بدر کی ایک ہمہ جہت، طوفانی و طولانی اردو تحریر تھی۔ انہوں نے ادبی پند و نصائح کا تیا پانچا کر کے نگارشات کا ایسا طومار باندھا کہ ساری قوم ان کے شانہ بشانہ اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑی۔ ہنگامی نگارشات نے سب کے ادبی و غیر ادبی شعور کو جھنجھوڑ بلکہ للکار کر رکھ دیا۔ ہر خاص و عام لکھاری کو اپنے اپنے شہ پارے تخلیق کرنے کی ایک نئی جہت سے روشناس ہونے کی فکر پڑ گئی۔
بس جی پھر کیا تھا ساری قوم حسبِ دستور دیوانہ وار اس ہلڑ بازی بلکہ شو بازی کے کارِ خیر میں حصہ لینے کو برسرِ پیکار ہو گئی۔ اس مرقع کے پیچھے پڑ کر سب نے اردو کی ہڈی پسلی ایک کر دی۔ جب ہم نے دیکھا کہ صورتحال قابو سے باہر ہو چکی ہے تو ہماری قومی زبان سے متعلقہ رگِ حمیت پھڑک اٹھی۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، خم ٹھونک کر اس میدانِ کازار میں کود پڑے۔
~
اس ضمن میں ہماری اردو تخلیقات کا یہ ادبی شہ کار ملاحظہ فرما کر سر دھنیں۔ اب یقیناً اطراف و جوانب میں ہاہاکار مچ جائے گی۔ آخر کو ہم چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے میں ید طولٰی رکھتے ہیں۔ مگر ساتھیو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کی کہانی بھی جلد آ رہی ہے۔ اس سیلِ رواں کو اب کوئی مائی کا لعل روکنے کی جراَت کر کے تو دکھائے۔
تحریر: فہمیدہ فرید خان
بتاریخ ۲۰ ستمبر ۲۰۱۶
گزشتہ تحریر بھی پڑھیئے منظرنامہ: سنہری یادوں کے خاکے