غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کی واپسی کا حکومتِ پاکستان کی جانب سے عندیہ ملتے ہی ہاہاکار مچ گئی۔ سرِ فہرست نالہ و فغاں یہ تھا کہ افغانیوں کو اس سر زمین سے نکالا جا رہا ہے جہاں ان کے بچے پیدا ہوئے، پلے بڑھے۔ انہیں جبراً ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں انہیں اپنے گھر (جائیداد وغیرہ) اونے پونے فروخت کرنا پڑ رہے ہیں۔
۔
پاکستان نے افغان روس جنگ میں امریکہ کی ایماء پر افغانستان کا ساتھ دیا تھا۔ روس تب عالمی طاقت تھا جبکہ امریکہ اس افق پر ابھر رہا تھا۔ اس نے روس کو گرانے کے لیے وہاں کی مسلم اکثریتی ریاستوں میں بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ بالآخر ۱۹۷۹ء میں جنگ چھڑ گئی، جس کے لیے امریکہ نے معاونت کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغانیوں نے ہجرت کر کے پاکستان میں پناہ حاصل کی۔
پاکستان نے انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ مگر اس وقت کی حکومت سے لے کر تا حال کوئی ٹھوس حکمتِ عملی نہ اپنائی گئی۔ ان مہاجرین کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور وہ پورے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ کچھ عرصہ بعد جنگ ختم ہو گئی۔ اصولی طور پر اس وقت افغان مہاجرین کو واپس روانہ کر دینا چاہیئے تھا۔ مگر اس مدعے پر بھی حکومت ڈھیلی رہی۔ یوں یہ معاملہ طول پکڑتا گیا اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے فیصلہ لینا کٹھن ہوتا چلا گیا۔
۔
پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ان کا آبائی وطن نہیں تھا، وہ یہاں پناہ گزین بن کر آئے تھے۔ یہ اور بات کہ انہوں نے یہاں زمینیں اور جائیدادیں بنا لیں اور کاروبار کیا۔ حتٰی کہ وہ پاکستانی شہریت تک حاصل کر چکے تھے۔ لیکن وہ پاکستانی نہیں تھے، تارکینِ وطن تھے۔ انہیں ایک نہ ایک دن واپس اپنے ملک جانا ہی تھا سو ملک بدری کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔
دوسری بات، یہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ حکومت نے اس پر باقاعدہ کام کیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں حکومتِ وقت نے افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن پھر سردی کا بہانہ بنا کر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
امسال حکومتِ پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے ۳۱ اکتوبر تک کا وقت دیا گیا تھا، جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے۔ یہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا اگلا اقدام پناہ گزینوں کو واپس ان کے ملک بھجوانے کا ہی ہو سکتا تھا۔ امید ہے اس مرتبہ اس منصوبے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔
۔
پاکستان نے ۱۹۷۹ء سے اب تک افغانی تارکینِ وطن کی ہر ممکن امداد کی۔ حتٰی کہ انہیں جائیداد بنانے اور کاروبار تک کرنے کی آزادی دی۔ تاہم پاکستانی شہریت کے بل بوتے پر جو کچھ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ستم یہ ہے کہ پاکستان کی تھالی میں کھا کر افغانی اسی میں چھید کر رہے ہیں۔ بے شک ان میں مخلص لوگ بھی ہیں لیکن گیہوں کے ساتھ گھن پس ہی جاتا ہے۔
پاکستان بذاتِ خود اس وقت شدید داخلی اور خارجی بحرانوں کا شکار ہے۔ جبکہ افغانستان میں اب امن قائم ہو چکا ہے۔ پھر کیوں نہ پاکستان کا ایک بوجھ ہلکا کرنے کی سعی کی جائے۔ آج نہیں تو کل تارکینِ وطن نے واپس جانا ہی ہے، سو یہ اصل وقت ہے درست فیصلے لینے کا۔ ہم اب مزید ذمہ داریاں اٹھانے کے متحمل نہیں ہیں۔
امید ہے غیر قانونی افغان مہاجرین کا پُر امن انخلاء جلد مکمل ہو جائے گا۔ وہ اپنے ملک جا کر نئی اور خوش حال زندگی شروع کر سکیں گے۔ لیکن پاکستان کے نام نہاد دانشوروں کو بھی ذرا عقل کو ہاتھ مار لینا چاہیئے۔ ساری زندگی آپ نے اپنے ملک پر گرجتے برستے ہی رہنا ہے تو آپ یہاں ٹکے ہوئے کیوں ہیں؟
نومبر ۳، ۲۰۲۳ بروز جمعۃ المبارک