No Smoking
ذہن کی عمیق ترین تہہ جہاں تحت الشعور سے رد کردہ یادیں خیالات، تجربات اور مشاہدات کو عمر قید کی سنا کر لاشعور کے زندانوں میں پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے۔ بچپن سے لے کر مرنے تک کے تمام معاملات اسی خانۂ لاشعور میں رکھے جاتے ہیں۔ ذہن کی یہ عمیق ترین تہہ شعور سے تحت الشعور اور تحت الشعور سے دھکیلی ہوئی یادوں خوف و اوہام سے لے کر انسانی ذہن سے منسلک ہر شے کو جمع رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر ہم آج سے پانچ سال پہلے شام کے چھ بجے کہاں اور کیا کر رہے تھے۔ اس سوال کا جواب اور ماضی کا سارا حال احوال ہمارے شعور و تحت الشعور سے نکل کر خانۂ لاشعور میں آ چکا ہوتا ہے۔ اس لیے لاکھ یاد کرنے پر بھی یہ ہمیں یاد نہیں آئے گا کیونکہ شعور کی روشنی کبھی لاشعور کے تاریک ایوانوں میں نہیں پہنچتی۔
اسی طرح کے بھولے بھٹکے واقعات اور یادیں ہمارے خانۂ لاشعور کا حصہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ خوابوں کا تعلق بھی لاشعور سے ہوتا ہے۔ لاشعور میں آپ کی زندگی کی ساری یادیں جو آپ کا شعور اور تحت الشعور رکھنے سے قاصر ہے، وہ اس احاطۂ شعور میں مجتمع ہوتی رہتی ہیں۔ لاشعور میں آپ کی ساری خواہشات، پریشانیاں، احساسات جو کبھی کسی ساعت آپ کی زیست کا جزو رہے تھے، جن کو آپ بھلا چکے ہیں، وہ ساری چیزیں آپکے لاشعور میں رہتی ہیں۔ لیکن کیا سچ میں ہم تحت الشعور کو مکمل طور پہ سمجھ پائے ہیں؟؟
کہانی مسٹر کے نامی ایک کامیاب بزنس مین سے شروع ہوتی ہے۔ اسے سگریٹ کی اتنی بری لت لگی ہوئی ہے کہ وہ نہاتے ہوئے بھی سگریٹ پیتا ہے۔ اس کی شادی شدہ زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ وہ چاہ کر بھی سگریٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن بیوی کی وجہ سے مان جاتا ہے.. بیوی اسے ایسے شخص کے پاس بھیجتی ہے جو ایک بحالی ادارہ چلاتا ہے۔ یہ ادارہ جھونپڑ پٹی نما علاقے میں زیرِ زمین واقع ہے۔ اس بنگالی بابا نے عجیب وغریب غنڈے پال رکھے ہیں۔
بنگالی بابا مسٹر کے کا علاج کرنے پر مان جاتا ہے۔ تاہم وہ اتنی سخت شرائط رکھتا ہے کہ مسٹر کے صاف صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بنگالی بابا پستول کی نال پہ معاہدے پر دستخط کرواتا ہے۔ مسٹر کے یہ سب دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ بابا اسے کہتے ہیں کہ تم آزاد ہو۔ جہاں جانا چاہو چلے جانا، پر تمہیں تین مواقع دیئے جائیں گے۔ اگر پہلی بار سگریٹ پیو گے تو تمہارے کسی عزیز کو ہزار سگریٹوں کے دھوئیں سے بھرے ڈرم میں دو منٹ تک رکھا جائے گا۔ دوسری مرتبہ پیا تو اس کی دو انگلیاں کاٹ دی جائیں گی۔۔۔ تیسری مرتبہ پیا تو کسی عزیز کو قتل کر دیا جائے گا۔ جبکہ چوتھی مرتبہ پینے پہ بنگالی بابا اس کی آتما کو ہمیشہ کے لیے قید کر دیں گے۔
یہ اپنے زمانے سے بہت آگے کی کہانی تھی۔ اس کی سنیماٹو گرافی ہالی ووڈ لیول کی تھی۔ بالی ووڈ میں سائیکالوجیکل تھرلر فلم جب بھی بنائی جاتی ہے تو کسی نہ کسی امریکی فلم کا چربہ ہوتی ہے۔ مگر یہ بالکل منفرد اور مختلف کہانی تھییہ اپنے زمانے سے بہت آگے کی کہانی تھی۔ اس کی سنیماٹو گرافی ہالی ووڈ لیول کی تھی۔۔۔ اس کے باوجود یہ باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی تھی۔
اب بھلا دو ہزار سات میں سائیکالوجیکل تھرلر فلم کوئی کیونکر دیکھتا۔ اس فلم کو آپ ایک بار دیکھ کر کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ چاہے آپ کتنے ہی بڑے طرم خان ہوں یا خود کو ایکسپرٹ سمجھتے ہوں۔ اس کا اختتام آپ جتنی بار دیکھیں گے، اتنی بار نیا رخ دیکھنے کو ملے گا۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ انوراگ کشپ نے کہا تھا کہ یہ مووی اسموکنگ سے متعلق نہیں ہے، نہ ہی کہانی کا اسموکنگ سے کوئی لینا دینا ہے۔ انوراگ کشپ نے ایسا کیوں کہا، جب کہ فلم میں اسموکنگ کو ہی مرکزی پلاٹ میں ڈالا گیا ہے؟؟
اگر آپ باریک بینی سے فلم کا جائزہ لیں تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ کاش جون ابراہام پرانا جون ابراہام بن جائے اور گھٹیا اسکرپٹ لینا چھوڑ دے۔ اس فلم میں آپ کو کوئی دوسرا ہی جون ابراہام نظر آئے گا۔ پریش راول نے بنگالی بابا کے کردار میں جو جان ڈالی ہے وہ آپ کو بہت مزہ دے گا
اگر آپ اچھی فلموں کے شوقین ہیں تو اسے بالکل مس نہ کریں۔
Movie: No Smoking
Genre: Psychological Thriller
IMDB: 7.3
تبصرہ: آہل درانی
Previous Blog Parasite A Korean Masterpiece