بیماری اور خصوصا عالمی وباؤں کے موضوعات پر بنی فلمیں مجھے پسند ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ وباؤں کا قلم اور تخلیقی صلاحیتوں پر مثبت یا منفی اثر لازم ہوتا ہے۔ میں نے وباؤں کے موضوع پر بننے والی فلموں میں انگمار برگ مین کی 1957 میں بنی فلم “دی سیونتھ سیل” کو بہتر پایا۔
.
دی سیونتھ سیل کا موضوع سیاہ موت ہے۔ اس نے یورپ سے برصغیر تک انسانی آبادیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ گلی کوچوں میں ناچتی اور اپنی فتح کا جشن مناتی رہی۔ طاعون! وہ اذیت ناک موت جس کے شکار کو پیٹرول چھڑک کر بے حقیقت جھاڑیوں کی مانند جلا دیا جاتا تھا۔
دی سیونتھ سیل ایک سویڈش فلم ہے جس کی شروعات پس منظر میں گونجنے والی اس آواز سے ہوتا ہے۔ ”جب بھیڑ (میمنا) ساتویں سیل کو کھول دے گی۔۔۔ تو جنت میں سناٹا چھا جائے گا۔“ یہاں سناٹے سے مراد خدا کی خاموشی ہے۔ تقریباً تمام فلم اسی تھیم یعنی خدا کی خاموشی کو لے کر چلتی ہے۔
یہ کہانی ایک بہادر اور جری شخص کی ہے۔ وہ فرشتہ اجل کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اس سے شطرنج کھیلنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔۔۔ تا کہ اپنی بستی، دوستوں اور خود کو بچا کر موت کو شکست دے سکے۔
.
فلم آغاز سے انجام تک شطرنج کی بازی پر مشتمل ہے۔ اس بازی کو بہادر جنگجو طویل سے طویل کیے چلا جاتا ہے۔
اس بازی میں شکست کس کی ہوئی اور فتح کسے نصیب ہوئی ، یہ جاننے کے لیے فلم دیکھیے۔ برگ مین کے لیے “دی سیونتھ سیل” وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آئندہ کے لیے نام، شہرت اور کامیابی کا سرخ قالین اس کے قدموں تلے بچھا دیا۔
بلاشبہ دی سیونتھ سیل ایک عالمی شاہکار اور ہر زمانے کی شاندار فلم ہے۔
مریم مجید ڈار کا گزشتہ تبصرہ دیکھیے میر معلوم ہے ملازم تھا