زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی۔ – Zindagi
پہلا حصّہ
دیکھیں
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میری تخلیق کی جوازیت کیا تھی؟
آیا زندگی کا مقصد پورا ہوا بھی یا نہیں؟
اس سوچ نے کئی در وا کیے اور نئے زاویے دکھلائے۔ میں وقتاً فوقتاً انہیں پرکھتی رہتی ہوں اور اپنی زندگی کا جواز سمجھنے کی سعی کرتی رہتی ہوں۔
عملی زندگی کے آغاز سے قبل میرا ارادہ سرکاری ملازمت اختیار کرنے کا تھا۔ اس لیے میں نے دورانِ تعلیم مختلف محکموں کی آسامیوں کے خلاف درخواستیں بھیجنا شروع کر دی تھیں۔ خیال یہی تھا کہ تعلیم مکمل ہونے پر میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی (محاورتاً)۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ فی زمانہ ملازمت ملنا کارِ دشوار ہے۔ اس سارے قضییے میں معذوری کو بھی شامل سمجھا جائے بلکہ اس کا نوے فیصد سے زائد حصٌہ رکھا جائے۔
۔
Zindagi
خیر
یہاں سے ایک نئے کھیل کی شروعات ہوئی۔ پہلے مابدولت نے لوکل گورنمنٹ کی ملازمت کا اشتہار دیکھا۔۔۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ پٹ درخواست لکھ کر تصویریں کھنچوانے پہنچ گئے۔ اگلے دن درخواست جمع کروا کے سکھ کا سانس لیا۔ شومئی قسمت چند دن بعد ٹیسٹ کے لیے عرض داشت موصول ہو گئی۔ ٹیسٹ میں مابدولت سرِ فہرست تھے۔ تب ہم معلوماتِ عامہ میں ید طولٰی رکھتے تھے۔
سوئے اتفاق انٹرویو میں بھی شپاشپ جواب دینے پر سیکریٹری صاحب نے شاباشی دی۔ مجھے ذہین فطین اور حاضر جواب بچی کا خطاب ملا۔ تاہم اصل دھماکہ تب ہوا، جب انہوں نے ملازمت دینے سے معذرت کر لی۔ مسترد کرنے کی وجہ معذوری بتائی گئی، ”چوں کہ آپ معذور ہیں، اس لیے آپ کو یہ ملازمت نہیں مل سکتی۔“ آگے ایک لمبی چوڑی وضاحت تھی، جو سراسر میرا ذاتی معاملہ تھا یعنی آنا جانا وغیرہ۔
۔
مابدولت نے سوچا ملازمت تو ملنی نہیں، انہیں کچھ سنا کر ہی جائیں۔ پھر فہمی صاحب نے آدھا گھنٹہ پند و نصائح سے بھرپور تقریر کی۔ سیکریٹری صاحب نے ہماری زبان دانی کی جولانی و طولانی سے گھبرا کر میرے لیے آسامی تخلیق کرنے کا عندیہ دے کر جان بخشی کروائی۔ غضب کیا، تیرے وعدے پہ اعتبار نہ کیا۔ اور وہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا کے مصداق سب مایا ہے۔
یکے بعد دیگرے کئی ملازمتوں میں یہی حال ہوا۔ انفارمیشن آفیسر کی ملازمت حکمِ امتناعی کی نذر ہو گئی۔ جب کہ لیکچرر شپ کی فائل سرے سے غائب کر دی گئی۔ پی ایس سی میں سیکشن آفیسر کی واحد آسامی، جس میں معذور افراد کا کوٹہ مختص تھا، تین سال انتظار کے بعد اس کا امتحانی شیڈول جاری ہوا۔ وہ جب مجھے ملا، اس دن پانچواں پیپر تھا۔
Zindagi
یہ صرف چند نمونے ہیں۔ کون سا محکمہ تھا، جہاں میں نے درخواست نہ دی تھی۔ مون (بھائی) نے ایک بار کہا، ”اگر کسی دن فہمی کی ڈگری پر پکوڑے کھاؤں تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہو گی۔“ ردی کاغذ کی طرح میں سی وی بھیجا کرتی تھی۔ میری ڈگریاں ردی کاغذ سے بھی ہلکی ثابت ہوئیں۔
۔
پے در پے ناکامیوں کے بعد میرا دل کھٹا ہو گیا۔ اس اضمحلال اور خلفشار نے سب سے پہلے معدے پر حملہ کیا اور مجھے شدید درد رہنے لگا۔ پھر یادداشت متاثر ہونے لگی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کوئی راہ بچی ہے، نہ میرے لائق کبھی کوئی کام دستیاب ہو سکتا ہے۔ وہ وقت بے حد کٹھن تھا۔ میرے بہن بھائی عملی زندگی میں قدم رکھ چکے تھے، بس میں ہی نکمی رہ گئی تھی۔ بے مقصد زندگی اور لا متناہی سوچیں جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھیں۔ پڑھائی کے دوران متحرک ترین زندگی گزارنے کے بعد یک دم جمود کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ میرا ذہن خالی ہوتا جا رہا تھا۔ میری ذہانت زنگ آلود ہو رہی تھی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ امید کی کرن اندھیرے سے ہی پھوٹتی ہے۔
۔ زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی، جاری ہے۔ Zindagi
فہمیدہ فرید خان کی گزشتہ تحریر بھی پڑھیئے رمضان کریم – دوسرا روزہ
اکتوبر ۱۱، ۲۰۲۳ بروز بدھ
Awesome
Thanks
Proud of you. MashaALLAH more power to you. Stay blessed.
Obliged
Ok