Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
Home » Fehmiology Recounts » زندگی ہر جینے (Jeenay) والے کے پاس نہیں ہوتی – دوسرا حصّہ

زندگی ہر جینے (Jeenay) والے کے پاس نہیں ہوتی – دوسرا حصّہ

آپ بیتی - حصّہ دوم

Zindagi - زندگی

زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی۔

Follow
User Rating: 3.51 ( 3 votes)

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

میری حالت ایسی تھی کہ میں بیٹھے بیٹھے رو پڑتی تھی۔ جو کھاتی، قے ہو جاتی یا معدے میں اتنا شدید درد اٹھتا کہ میں نڈھال ہو جاتی۔ ایک وقت آیا کہ قے اور دست نے رکنے کا نام نہ لیا۔ ڈرپ پہ ڈرپ چڑھنے لگی۔ میں ڈرپ لگانے اور کینولا اتارنے لگانے میں ماہر ہو گئی۔ کینولا کون سی رگ میں لگے گا اور کتنی دیر بعد ڈرپ اتار دینی ہے، یہ میں بخوبی جان گئی تھی۔ (مجھے مکمل ڈرپ نہیں لگتی تھی، میری جسمانی حالت کے بہ مؤجب مقدار کم رکھی جاتی تھی۔) شروع میں بہنوئی نشان لگا دیتے تھے کہ یہاں تک لگانی ہے۔ پھر میں خود اندازے سے بتا دیتی تھی۔

۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق میری طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ میں تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی جگہ لڑھک جاتی تھی۔ ہمارے خاندانی ڈاکٹر ابرار شاہ نے دیکھتے ساتھ کہہ دیا، اس کا خون کم ہے، تقریباً ۵.۴۔ یہ انہوں نے طبی معائنہ سے قبل زبانی بتایا تھا۔ ٹیسٹ کے بعد بالکل اتنا ہی نکلا۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

مون (بھائی) نے اپنے حلقۂ احباب سے خون دینے کی استدعا کی۔ اس نے جامعہ آزاد کشمیر میں خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی ہوئی تھی۔ میرے دونوں بھائی باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ۱۵۰ سے زائد افراد نے خون دینے کی ہامی بھری۔ ان میں بڑے نامور لوگ شامل تھے۔ (امید کی کرن) مون کا بے ساختہ تبصرہ تھا، ”لوگوں سے خون دینے کا کہو تو غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن فہمی کا سنتے ہی فلاں فلاں بندے نے بھی بولا کہ میں دوں گا۔” یاد رہے تب میں قلم کار تھی نہ معروف۔ محدود سے حلقے میں میری ٹوٹی پھوٹی شاعری وجۂ پہچان تھی۔

مجھے تین پنٹ خون لگنا تھا۔ کافی عرصہ وقتاً فوقتاً اضطرابی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ دو تین مرتبہ ڈاکٹر بہنوئی کو بھی شدید تشویش لاحق ہوئی۔ میں اکیلے ہونے کے خوف میں مبتلا رہنے لگی تھی۔ گھر والے کہیں جانے کا کہتے تو مجھے جھرجھری آ جاتی۔ میرے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی، پیچھے مجھے کچھ ہو گیا توووو۔ ان دنوں میں نے بہن بھائیوں کی بڑی دوڑیں لگوائی تھیں۔

۔

دوسری جانب معدے کا لفڑا ہنوز چل رہا تھا۔ پھر ڈاکٹر خواجہ ارشد کے پاس جانا پڑا۔ انہوں نے کیس ہسٹری جان کر معدے کے ساتھ مسکن دوائیں بھی تجویز کیں۔ انہوں نے کچھ چیزیں کھانے پر پابندی عائد کر دی یعنی روٹی، دالیں (چنے، لوبیا وغیرہ) مٹر اور بھنڈی۔ خون لگنے کے بعد میں نے چائے از خود کم کر دی تھی۔ یوں یہ معاملہ بتدریج حل ہونا شروع ہوا۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

اس بیچ اشعر نے مجھے آن لائن لکھنے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔ اس نے میرے لیے بلاگ بنایا۔ میں نے مارے بندھے ایک مضمون لکھا اور چپ سادھ لی۔ دل میں سوچا، بھیا یہ ہم کے بس کا روگ نہیں۔

اضمحلال اور انتشار جینے نہ دیتا تھا۔ طویل عرصہ وحشت میں گزار کے ایک دن خود کو خوب پھٹکارا۔

بی بی کہاں گئی آپ کی خوش امیدی اور خوش مزاجی؟

کیا کر رہی ہو؟ کرنا کیا چاہتی ہو؟

پھر اپنے آپ کو ہلا شیری دینا شروع کی۔ بہن بھائی پہلے ہی اس مشن پر تھے۔ الوینہ نے فیس بک اکاؤنٹ بنا دیا۔ بہن بھائیوں نے چن چن کر سارے دوست اس میں شامل کیے۔ فہمی صاحب نے تاکا جھانکی کے بعد چھوٹتے ہی ناولٹی گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ گوگل سے صاحب سلامت سے نت نئے ناول اور کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ بقول ہنی (چھوٹا بھائی) کے فہمی آپی نے گوگل پر کوئی ناول باقی نہیں چھوڑا۔ ساتھ مفت طعنہ بھی دے مارا، ”اتنے ناول میں نے پڑھے ہوتے تو کم از کم ایک ناول لکھ چکا ہوتا۔“ اس کے طنز کو میں نے سنجیدگی سے لیا تھا۔

۔

میں نے ایم اے لسانیات میں داخلہ لے لیا۔ لیکن پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔ بیماری کے دوران یادداشت کافی زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ جو بھی پڑھتی، بھول جاتی۔ پھر سوچا کچھ ایسا کرنا چاہیئے جس سے مصروفیت ملے اور میں متحرک بھی ہو جاؤں۔ مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

ایک دن میں کام سے کمرے میں گئی اور سامنے پڑے اون کے گولے پر نگاہ ٹک گئی۔ غائب دماغی سے اسے تکتے ہوئے زندگی کا فلسفہ ذہن میں چکرانے لگا۔ جیسے سویٹر مکمل ہوتا جاتا ہے، دوسری طرف یہ کام انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ بعینہٖ زندگی کی ظرح۔۔۔ عمر بڑھتی جاتی ہے لیکن زندگی گھٹتی جاتی ہے۔ میں نے جھپٹ کر گولہ اٹھایا اور دراز سے سلائیاں ڈھونڈ نکالیں۔ گول کمرے کی فرشی نشست پر بیٹھ کر تسلی سے یوٹیوب کھولی اور لکھا۔۔۔

Baby Booties

کیا سمجھے آپ، میں کیا کرنے جا رہی تھی؟

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

جاری ہے۔

فہمیدہ فرید خان

اکتوبر ۱۱، ۲۰۲۳ بروزِ بدھ

پہلا حصّہ پڑھیئے زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی

About Fehmeeda Farid Khan

Fehmeeda Farid Khan is a freelance blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and a novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *