Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
تیسرا حصّہ
مجھے اون سے سب چیزیں بُننا آتی ہیں۔ میں ٹوپی، جرابیں، سویٹر، فراک حتٰی کہ ڈانگری بھی بن لیتی ہوں۔ بچپن میں چھوٹے بچوں کو اونی ٹوپی اور جرابیں تحفتاً دیا کرتی تھی۔ وہی بات ذہن میں گھوم رہی تھی۔ مجھے بس جوتے بنانا نہیں آتے تھے۔ وہ میں نے یوٹیوب سے بنانا سیکھے۔ میں جوتے بناتی جاتی اور شیشے کی ٹی وی ٹرالی پر ڈھیر کرتی جاتی۔ ایک دن بھانجی کو جانے کیا سوجھی کہ انہیں ترتیب سے سجا دیا۔ ممانی آئیں تو دیکھ کر خوب ہنسیں، ”یوں لگتا ہے جیسے شوکیس میں فروخت کے لیے رکھے ہوں۔“ میں نے مذاقاٌ ان سے بھاؤ تاؤ کرنا شروع کر دیا۔ جب کافی سارے جوتے بن گئے تو مون نے بیچنے کا مشورہ دیا۔ لیکن میں نے صرف صفحہ بنا کر پوسٹ کرنے پر اکتفاء کیا۔
۔
مجھے ایک مزے دار مصروفیت مل گئی تھی۔ فرمائشیں آنے لگیں کہ فلاں طرح کا جوتا بناؤ۔ میری دیکھا دیکھی سارا گھر کچھ نہ کچھ بُننے میں جت گیا۔ بھابھی کو بننے میں دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ میرے لیے کروشیہ پنیں لے آئیں۔ میرے پاس رنگ برنگی اون، سلائیوں کے سیٹ اور ہر قسم ان گنت ڈیزائن اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس دوران مون کری ایشن کے سید صلاح الدین سر آگے آئے۔ اس مرتبہ ان کے پاس میرے لیے ایک ویب سائٹ پر لکھنے کی پیش کش تھی۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
پسِ منظر
میں نے کچھ عرصہ عالمی بینک کے ایک پراجیکٹ پر بطور رپورٹنگ انالسٹ کام کیا تھا۔ مظفرآباد میں شاعری کی وجہ سے قدرے معروف تھی۔ میں اسکول کے زمانے سے شعر کہتی آ رہی تھی۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر مجھے دسترس حاصل تھی۔ میں مذکورہ بالا پراجیکٹ میں دونوں زبانوں میں رپورٹیں لکھا کرتی تھی۔ ایک کتاب بھی ترجمہ کر چکی تھی۔ تاہم اسے مکمل طور پر لکھنے کا تجربہ نہیں کہا جا سکتا تھا۔
۔
دوسری طرف ہم نے (ریاب اور میں نے) لڑکپن میں کاسامیرا آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ (اب رجسٹرڈ ہے الحمدللہ) ہم تھیلیسیمیا کے بچوں کے لیے خون کے عطیات جمع کیا کرتے اور شجر کاری کی ترغیب دینے کے لیے ایونٹ بناتے تھے۔ مظفرآباد میں رمضان دسترخوان بھی متعارف کروایا۔ ان تمام سرگرمیوں کا تشہیری مواد میں ہی لکھا کرتی تھی۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
خیر
موضوع پر واپس آتے ہیں۔ میں نے سر کو صاف بتا دیا کہ یہ کام میں شاید نہ کر سکوں۔ انہوں نے اصرار کیا، ”آپ کوشش تو کریں۔۔۔ نہ کر پائیں تو چھوڑ دیجئے گا۔ کوئی زبردستی تو نہیں کروائے گا۔“ میں نے ہامی بھر لی۔ یوں ایک ٹور کمپنی کے لیے چھ ہزار روپے ماہانہ پر ساٹھ آرٹیکل لکھنے لگی۔ یہ میرا فری لانسر بننے کے سفر کا نقطۂ آغاز تھا۔
جاری ہے۔
اکتوبر ۱۱، ۲۰۲۳ بروزِ بدھ
زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی (پہلا حصّہ)
زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی (دوسرا حصّہ)