Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
پانچواں اور آخری حصّہ
میں نے سوچا تھا ”زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی“ کے چوتھے حصہ میں ہی اختتامیہ لکھ دوں گی مگر میں تھک گئی تھی۔ یوں کچھ تشنگی رہ گئی تھی۔
میں نے یہ تحریر کیوں لکھی؟
جب کہ میں اکثر و بیشتر باتیں کسی نہ کسی تحریر میں بتا چکی ہوں۔ پھر پرانے راگ دہرانے کا مقصد؟
پہلی بات، زیادہ تر لوگوں نے وہ تحریریں نہیں پڑھیں کیوں کہ وہ میرے صفحہ یعنی فہمیولوجی کے بارے میں نہیں جانتے۔ دوسری بات، جب یکے بعد دیگرے میری دلچسپ یادداشتیں سامنے آئیں تو بڑے دن بعد بے ساختہ کچھ لکھنے کا دل کیا۔
۔
خیر
شروع سے آغاز کرتے ہیں، ہاہاہاہا۔
میری اماں نے مجھے سب کام سکھانے کی ٹھانی ہوئی تھی، کھانا بنانے سے لے کر جھاڑو پونچھے تک۔ ان کے بقول، ”اگر کبھی اکیلے رہنا پڑا تو محتاجی نہیں ہو گی۔“ میں سارے کام آرام سے کر لیتی تھی۔ بس ایک آٹا گوندھنے کے کام میں کبھی ہاتھ نہ ڈال سکی۔ لیکن مانی بنانے کا سوچ کر خود کو تسلی دے لیا کرتی تھی۔ آگے چل کر روٹی کھانا ہی منع ہو گئی۔ میں جو بھی پکاتی، عموماً سب کو پسند آ جاتا تھا۔ کچھ فرمائشی کھانے خاص طور پر بنوائے جاتے تھے جیسے قیمہ کریلے اور ماش کی دال۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
میں اپنا ناشتہ خود بنا لیا کرتی تھی۔ کبھی کبھار پراٹھا ورنہ ڈبل روٹی اور آملیٹ۔ پیڑے اماں نے بنا کر رکھے ہوتے تھے، بس بیل کر توے پر ڈالنا ہوتا تھا۔ مجھے قسما قسم کے آملیٹ بنانا آتے تھے۔ ہر سبزی ذائقہ دار پک جاتی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے ہاتھوں کبھی کوئی کھانا خراب نہیں ہوا۔ سو سب بے فکر تھے کہ ضرورت کے وقت کام چلا لے گی۔
۔
میرے بھائی (مون) نے میری پہلی ای میل بنائی تاکہ میں اپنی سی وی خود بھیج دیا کروں۔ لیکن مجھے ڈیسک ٹاپ آن کرنا آتا تھا، نہ میں سیکھنے میں دلچسپی تھی۔ تب میرے پاس موبائل بھی نہیں تھا۔ میں سی وی لکھ کر بھائی کو تھما دیتی تھی۔ وہ بے چارہ ٹائپ کرتا، ای میل کر کے جواب بھی خود ہی دے دیتا۔ ایک دن اسے جانے کیا سوجھی جو میرے لیے موبائل خرید لایا۔ ہنی نے سم کا تحفہ دیا۔ یوں فہمی صاحب ٹیکنالوجی کی دنیا آن وارد ہوئے۔ میں نے موبائل کا بغور معائنہ کیا اور گیم کھیلنا شروع کر دی۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
کچھ دن بعد میں نے سماجی رابطے کے ذرائع استعمال کرنا شروع کیے بلکہ زبردستی مجھ پر ٹھونسے گئے۔ بقول میرے بہن بھائیوں کے، ”فہمی کو مصروفیت کی اشد ضرورت ہے۔“ میں نے چند دن فیس بک وغیرہ کو سمجھنے میں گزارے۔جب میرے چہرے پر غصب ناک تاثرات ابھرتے تو ہنی ہنس کر کہتا، ”فہمی آپی نے پھر کوئی اونگی بونگی چیز دیکھ لی ہے۔“ اسی وجہ سےپھر میں نے چند اصول وضع کیے۔ مجھے ایسا کرنے کا کسی نے کہا نہیں تھا مگر مجھے تب یہ کام ضروری محسوس ہوتا تھا اور اب لازمی۔
۔
۔۱ سماجی روابط کے ذرائع پر قابو نہیں، لیکن خود پر تو ہے۔
۔۲ آپ کی ایک حد ہے۔ اس سے کبھی تجاوز نہیں کرنا۔
۔۳ انباکس صرف کام کی گفتگو کے لیے۔ (بعد میں کچھ دوستوں کے گروپ بنے۔ لیکن ان میں سے اکثر کے ساتھ جان پہچان ہو چکی تھی۔)
۔۴ بلاوجہ کسی سے نہیں الجھنا۔
۔۵ حلقۂ احباب محدود رکھنا۔ تاہم بعد میں بوجوہ یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔
۔۶ ہر ایک کی درخواست قبول نہیں کرنی، خصوصاً مردانہ۔
۔۷ متفرق ردِ عمل کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا۔
۔۸ ایک کی بات دوسرے کو نہیں بتانی، خاص طور پر باہمی دوستوں کے درمیان پُل قطعی نہیں بننا۔ کیوں کہ اکثر پنگوں میں وہی دوست پھنستا ہے جو صلح کا پرچم لہراتا ہے۔ جھگڑنے والے شیر و شکر ہو کر بیچ والے کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں۔ اس پر پھڈوں کی علیحدہ داستان ہے کہ مجھے کیوں نہ بتایا؟ مگر اس اصول کی وجہ سے بہت بچت رہی۔
۔
۔۹ کام کی بات کے علاوہ کبھی عکسِ کرتوتِ سیاہ نہ لینے ہیں اور نہ ڈاکیے کا کردار ادا کرنا ہے۔
۔۱۰ چھوڑ کر چلے جانے والے پر کوئی بات نہیں کرنی۔ گیا، سو گیا۔ ٹاٹا بائے بائے۔۔۔
۔۱۱ کسی سے توقع نہ رکھنا۔ کوئی کا کام کر دے تو شکر گزار ہونا۔ نہ کرے تو دل میں بیر نہ پالنا۔
۔۱۲ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرنا۔ کسی اور کی رائے پر صاد نہ کرنا۔
۔۱۳ پرانی ناراضی کو نئے جھگڑے کے ساتھ نہ جوڑنا۔
۔۱۴ بے تکلف دوستوں کے علاوہ کسی کی پوسٹ پر تصحیح نہ کرنا۔
۔۱۵ غصے یا پھڈے کے وقت منظرِ عام سے غائب ہو جانا۔ ہاں جب اشد ضروری ہو تو جواب دینے سے کبھی نہ چوکنا۔
۔۱۶ شعوری طور پر لڑائی جھگڑے کی باتیں ذہن سے محو کرنے کی سعی کرنا۔ اب کوئی ذکر کرے تو مجھے اکثر یاد ہی نہیں آتا کہ فلاں پھڈا ہوا کیوں تھا؟
۔
سماجی روابط کے ذرائع میری مصروفیت کی وجہ ہیں۔ میں ہر چیز سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ فیس بک وغیرہ سے بھی بہت کچھ سیکھا۔
یہیں سے میں نے رویے پڑھنا سیکھے۔
دوست دشمن کی پہچان سیکھی۔
دوستی کو کسی اور کی وجہ سے لاتعلقی میں بدلتے دیکھا۔ بعینہٖ مخالفین کو ہاتھ ملاتے دیکھا۔
چند مخلص دوستوں کا ساتھ ملا۔ خواہ مخواہ کے دشمن بھی تحفے میں پائے۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
ڈیسک ٹاپ کو ہاتھ نہ لگانے والی۔۔۔
بھائی کے دو لیپ ٹاپ کا کباڑہ کر ڈالنے والی۔۔۔
اپنی ویب سائٹ کو حاضر غائب کر دینے والی۔۔۔
معاوضوں میں دھوکے کھانے والی۔۔۔
تلخ رویے سہہ کر خاموش ہو جانے والی۔۔۔
داؤ لگنے کے طعنے سننے والی۔۔۔
آزاد کشمیر کی پہلی خاتون بلاگر اور پہلی خاتون ٹور آپریٹر بننے کے بعد تلخ رویوں کا سامنا کرنے والی۔۔۔
بطورِ شاعرہ، مترجم، ناول نگار اور افسانہ نگار معروف ہونے والی فہمیدہ سے آپ یہ توقع مت رکھیے گا کہ وہ اب اپنا استحصال ہونے دے گی۔ میں دھوکہ دہی اور دنگا فساد کے بجائے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دیتی ہوں۔ شہرت یا بڑھ بڑھ کر باتیں بنانا میرا شیوہ کبھی رہا ہی نہیں۔ اپنی قائم کردہ حدود میں اپنے اصولوں کے ساتھ خوش ہوں۔ بھلے میرے پاس پیسہ نہیں، مگر میرا دل پُرسکون ہے۔
۔
دوستوں کے لیے دل کشادہ اور ظرف وسیع ہے لیکن میں اپنے کردار اور عمل کے بارے میں بہت حساس ہوں۔ جہاں میری خودی متاثر ہو رہی ہو، وہاں تحمل، برداشت اور رواداری کا مادہ صفر بٹہ صفر۔
No offense yet it’s hell true.
میں منتقم مزاج نہیں ہوں۔ لیکن کسی کی باتیں سن کر میرے لیے پہلے جیسا تعلق رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہاں میں مروت ضرور برت لیتی ہوں۔
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
اب میری زندگی کا نقشہ بہت حد تک بدل گیا ہے۔
میں صبح سے شام تک کاموں میں ادل بدل کر کے خود کو مصروف رکھتی ہوں۔
بلاگ پر کام کرنا۔
اپنا اور بھتیجے کا یوٹیوب چینل دیکھ لینا۔
ای میلز دیکھ کر کے ٹھکانے لگانا۔
یوٹیوب سے سرچ انجن آپٹیمائزیشن اور دیگر تکنیکی مہارتیں سیکھنے کی کوشش کرنا۔
گاہے بگاہے فیس بک پر چکر لگانا۔
انباکس میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینا۔
دوسروں کی تحریریں نظرِ ثانی کرنا۔
تھوڑا بہت اپنا لکھ لینا۔
تجوید پڑھنا۔
وقتاً فوقتاً واٹس ایپ گروپوں میں تاکا جھانکی کرنا۔ کوئی کام کی بات ہو تو مقدور بھر حصہ ڈال لینا۔ دوستوں سے پنگے لینا۔
لوڈو اور کینڈی کرش کھیلنا۔
کسی کی سالگرہ ہو اور موڈ بھی ہو پوسٹ لکھ دینا۔ (اکثر لوگوں کے خیال میں بِستی خراب کرنا۔ وہ پڑھتے ہیں، لکھنے کی فرمائشیں بھی آتی ہیں لیکن کیڑے بھی نکالتے ہیں۔ سالگراتی تحریریں میرے درج ذیل صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ہیش ٹیگ #مکینے_لوگ اور #نگینے_لوگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ صفحہ میں نے قلم کار بننے کے بعد بنایا تھا۔
آج کل دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھتی ہوں، خصوصاً کوہ پیماؤں کی۔ سب سے پہلے ولید کے لیے لکھا تھا، پھر چل سو چل۔۔۔
۔
حرفِ آخر
میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں۔ سال کے پونے بارہ مہینے میری صحت کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا رہتا ہے۔ بقول الوینہ (ڈاکٹر بہن) کے ”مجھے سمجھ نہیں آتی، فہمی آپی اتنا بیمار کیوں ہوتی ہیں۔“ کبھی کبھار متلون مزاجی کا بد ترین حملہ ہوتا ہے۔ (جو میرے دوست بھگتتے ہیں۔) غصے میں انٹ شنٹ بولتی ہوں۔ اظہار کم کرتی ہوں لیکن مجھے دوسروں کی بہت سی باتیں بری لگتی ہیں۔ سیاست پر گفتگو کرنا کم کر دی ہے۔ لوگ عدمِ برداشت کی زیادتی شکار ہو چکے ہیں۔
پے در پے کئی واقعات اور لوگوں کے نا مناسب رویے کی وجہ سے تصحیح، درستی یا تجویز دینے سے بھی توبہ تائب ہو گئی ہوں۔ اب صرف ان لوگوں کی املاء وغیرہ درست کرتی ہوں، جو مجھے برداشت کر لیتے ہیں۔ جو بلاجواز چائے کی پیالی میں طوفان نہیں اٹھاتے۔
۔
ساتھیو
میری زندگی سہل نہیں مگر میں نے اسے کٹھن بھی نہیں بننے دیا۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے تو میں دو کام کرتی ہوں، منظر سے غائب ہو جاتی ہوں یا فوری ردِ عمل دینے سے گریز کرتی ہوں۔ (بعد میں ضرورت ہی نہیں رہتی۔) اگر موقع پر موجود رہوں تو اگلے بندے کو ٹھاہ ٹھاہ بجاتی ہوں۔
جہاں زندگی آزار بن رہی ہو، پیچھے ہٹ جائیں۔ اپنے لہجے پر قابو رکھنا سیکھیں۔ دوسروں کو آسانیاں فراہم کر سکتے ہوں تو ضرور کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں ہدایت کے راستے پر رکھے اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین!
فہمیدہ فرید خان
مورخہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۲۳ بروزِ جمعرات
پہلا حصہ ~ زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی
دوسرا حصہ ~ زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی
تیسرا حصہ ~ زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی
چوتھا حصہ ~ زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی