آخر شب کے ہمسفر
قرۃ العین حیدر
آخر شب کے ہمسفر برصغیر کی تاریخ اور تقسیم پر لکھا گیا ناول ہے۔ اس کا موضوع بنگال کی کمیونسٹ تحریک کا آغاز، انجام اور پس منظر ہے۔ یہ سیاست اور انسان کے گرد گھومتی ایک کہانی ہے جو بیک وقت مختلف سمتوں میں آگے بڑھتی ہے۔ کیسے وقت اپنا رنگ دکھاتا ہے اور گزرتا چلا جاتا ہے۔ جب انسان کے خواب اس کی دھول میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ جب وقت کے آئینے سے وہ گرد صاف کرتے ہیں تو ہم خود کو ہی نہیں پہچان پاتے۔
آخر شب کے ہمسفر میں زندگی کے بہت سے پیچیدہ زاویے اتنی خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں کہ ہر کردار کے حق میں آپ کا دل گواہی دے گا۔ مختلف مذاہب مگر ایک جیسے لوگ جو صدیوں سے ساتھ بستے تھے۔ وہ خون کے رشتوں سے زیادہ قریب تھے۔ مگر پھر سیاست دانوں نے انہیں بتایا کہ وہ اصل میں کتنے مختلف ہیں۔ اتنے مختلف کے ایک دوسرے کے دشمن قرار دیئے جانے کے لائق ہیں۔ انگریز، ہندو مسلم سب خود کو بہتر جانتے ہیں۔ سب کی سوچ اور وجوہات کو تاریخ کے پس منظر کے ساتھ بڑے نرالے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
•
دیپالی سرکار ایک ابھرتی ہوئی گلوکارہ ہے۔ اس نے اپنے چچا کو سیاست کے بھینٹ چڑھتے دیکھا اور اب خود بھی اس انقلاب کے حق میں ہے۔ کبھی اپنے گروپ کے لیے جاسوسی کرتی ہے، کبھی مالی مدد کے لیے گھر سے چیزیں بھی چراتی ہے۔ لیکن دل میں امید قائم ہے کہ کچھ بدلے گا اور اچھا ہو گا۔ ریحان الدین ایک پراسرار کردار جو اس انقلاب کا رہنما بننے جا رہا ہے۔ اس کے لیے اپنے نواب خاندان سے الگ ہو کر بن باس کی سی زندگی جی رہا ہے۔ وہ دیپالی سے محبت کا دعویدار ہے۔
جہان آرا دیپالی کے بچپن کی دوست جو اپنے خاندان کے رسم و رواج کے آگے بے بس ہے اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور بھی۔ للی کے کردار میں بنگال کی کرسچن برادری کی زندگی کی جھلک دکھائی گئی اور تاریخی پس منظر بھی بیان ہوا۔ اومارائے سیاسی طور پر ایک اہم گھرانے کی فرد جو اس انقلاب میں ایک اہم مہرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سب نوجوان ایک ہی خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی منزل ایک ہے مگر زندگی ان کو بالکل مختلف سمتوں کو لے جاتی ہے۔
•
جہاں ایک طرف ان نوجوانوں کی صورت میں امید جاگتی ہے، وہیں ایک تلخ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔ جوانی کا جوش و جذبہ جب زندگی کے اتار چڑھاؤ سے نبرد آزما ہوتا ہے تو بہت کم لوگ ہی ثابت قدم رہ پاتے ہیں۔ لالچ اور اختلافات تحریکوں کو کھا جاتے ہیں۔ خواب دیکھنا اور زندگی جینا دو الگ باتیں ہیں۔ آخر شب کے ہمسفر پڑھتے ہوئے وطنِ عزیز کے حالات ہمہ وقت ساتھ رہے۔ ایسا لگا یہ تو آج کل کی کہانی بھی ہے۔ ہمارے نوجوان ملکی حالات سے تنگ ہیں، بہت کچھ بدلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔
ایک اور بات جو محسوس ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ آج کے دور کے لکھاری بہترین کام کر رہے ہیں، بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ مگر جب آپ قرۃ العین حیدر اور اس دور کے لوگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں تو کہانی کی بنت، منظر نگاری، زندگی کے نشیب و فراز کا جس گہرائی سے جائزہ لیا جاتا تھا، وہ اب ناپید ہے۔ دوسرا اس ناول میں کرداروں کو ان کے منتقی انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ قاری کے دل میں جو ایک بات رہ جاتی ہے کہ پھر آگے کیا ہوا؟ اس کا جواب بھی یہاں موجود ہے۔ مجھے ایسے انجام بہت اچھے لگتے ہیں جب شروع سے آخر تک کردار کا ساتھ رہے۔
•
آخر شب کے ہمسفر میں سسپنس ہے، محبت ہے، سیاست کی باریک بینی ہے، زندگی کے تلخ حقائق ہیں۔ یہ ناول اور اس کے کردار بلاشبہ آپ کے دل میں گھر کر جائیں گے اور بہت دیر تک یاد رہیں گے۔
تبصرہ نگار: سدرہ جاوید