شکستِ شب از فریدہ اشفاق
کچھ چیزوں اور واقعات کے ساتھ آپ کے احساسات جڑے ہوتے ہیں۔ ان کو سمجھنا اور سمجھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایسا ہی معاملہ ناول شکستِ شب کے ساتھ بھی رہا۔ میں یہ ناول کبھی نہیں بھول پائی مگر مجھے مکمل طور پر یاد بھی نہیں تھا۔ میری یادداشت کے دریچے میں انجم اور شاہ زیب کی ملاقات کا لمحہ روشن تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ دونوں کون ہیں تو اس کے لیے مجھے چند برس پیچھے جانا پڑے گا۔
۔
مجھے ایک رسالہ ملا تھا، جس میں شکستِ شب کی پتہ نہیں کون سی ویں قسط چل رہی تھی۔ یہ انجم اور شاہ زیب کی کسی کی شادی میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ اور بات کہ وہ دراصل عقیقہ نکلا۔ خیر پھر میں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر یہ ناول مکمل پڑھا تھا۔ لیکن وہ لاابالی عمریا تھی تو میں آدھے سے زیادہ ناول بھول بھال گئی۔ کافی دن سے مجھے کوئی زبردست سی تحریر پڑھنے کا من تھا۔ نگاہ انتخاب اسی ناول پر جا ٹکی۔ رات ۱۲ کے بعد ڈاؤنلوڈ کیا۔ کچھ حصہ رات کو پڑھ کر باقی صبح اٹھ کر مکمل کیا۔
اچھا شکستِ شب کی بات کی جائے تو ان گنی چنی تحریروں میں شامل ہو گیا ہے جن کو دوبارہ پڑھ کر بھی اتنا ہی لطف آیا۔ گو کہ یہ ناول قسط وار چلتا رہا ہے، اس کے باوجود اس میں بے ربطی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ میری نظر میں فریدہ اشفاق ایک منجھی ہوئی قلم کار ہیں۔ یہ ان کی بہترین تحریر کہی جا سکتی ہے۔ اس میں روانی، جولانی، طولانی و سیلانی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔
۔
تحریم حسن، تحریم انجم، رانی یہ ایک ہی کردار کے نام ہیں جو شکستِ شب میں وقتاً فوقتاً استعمال کیے گئے ہیں۔ مگر کہیں بھی ان کا بے محابہ یا بے جا استعمال نہیں لگا۔ اس کردار کے جذبات و احساسات کو بے حد مہارت اور چابکدستی سے بیان کیا گیا ہے، جس کا لطف پڑھ کر ہی آ سکتا ہے۔ رفعت کی اس سے زبردست ذہنی ہم آہنگی بھی خوب رہی۔ ان کی جامعہ کی سہیلیوں کے کردار بھی فٹ رہے۔ خاص طور پر شہلا کا کردار پر لطف لگا۔ عرفان چچا کا خاندان بھی اچھے سے بیان کیا گیا۔ خاص طور شاہد بھائی، فرحت آپا اور ان کے میاں کا تذکرہ خوب تھا۔
شاہ زیب عرف شازے کا کردار بھی بھرپور رہا۔ ان کی تحریم سے رشتے کو لے کر جو ذہنی و خاندانی کشمکش اور کشاکش دکھائی گئی۔ اس کی لفاظی بھی بہترین رہی۔ شاہ زیب کے والد انصرام حسن موجود نہ ہوتے ہوئے بھی شکستِ شب میں موجود رہے۔ ان کی والدہ صالحہ بیگم کی ہٹ دھرمی غصہ دلاتی رہی۔ آصف، توصیف اور سیف الرحمٰن کو لے ان کے ذہن میں جو الجھنیں پلتی رہیں، وہ بھی خاصے کی چیز تھیں۔ ان کے ماموں زاد افتخار کا کردار بھی بہترین لگا۔
۔
آصف احتشام ایک چلبلا مگر حساس کردار۔۔۔ شکستِ شب میں میرا سب سے پسندیدہ کردار یہی رہا۔ اپنی بہن کے لیے اس کے جذبات لائق تحسین تھے۔ احتشام حسن، ریحانہ بھابھی، انابی کی بے غرضی اچھی لگی۔ ارم بھابھی، مامی اور ماموں کی فیملی بھی پسند آئی۔ چاچی کا چلتا پرزہ کردار بھی مزے کا تھا۔ منجھلی تائی ان کی ہمزاد محسوس ہوئیں۔ ملازمین سے لے کر ہر رشتے تک کوئی بھی کردار بھرتی کا نہیں لگا۔
اگر آپ ایسے گھریلو ناول پسند کرتے ہیں، جس میں اچھی لفاظی بھی ہو تو میں شکستِ شب تجویز کروں گی۔ شوخی، شرارت، رجائیت و نومیدی کے ساتھ اس میں رومانویت کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے مگر پھکڑ پن کے بغیر۔ میرے جیسے نوآموز قلم کار اس ناول سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
بتاریخ ۹ اکتوبر ۲۰۲۰ء
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ کربِ آشنائی