عالمی یومِ معذوراں کانفرنس
فہمی آپی ہم عالمی یومِ معذوراں کے موقع پر کانفرنس کروا رہے ہیں۔ آپ آئیں گی؟
مجھے مومنہ وحید کا پیغام ملا تب میں برہم مزاجی کے چکر بھگت رہی تھی۔ سو میں نے اسے ٹکا سا جواب دیا۔
میں نہیں آ سکتی۔
مومنہ نے اس جواب کو سنجیدہ نہیں لیا یا وہ بھول بھال گئی۔ دو تین دن بعد مومنہ اور انعم راٹھور کا اکٹھے پیغام ملا یومِ معذوراں کی تقریب میں شمولیت کا۔ بلکہ انعم نے کافی اصرار سے مدعو کیا۔ میں برملا کہوں گی، میں نے گیارہویں گھنٹے پر ہامی بھری تھی تو صرف انعم کی وجہ سے۔ جیتی رہو لڑکی۔ میں نے سوچ لیا تھا ہونا ہوانا کچھ نہیں، چلو آؤٹنگ ہی سہی۔ گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ میں کانفرنس میں جا رہی ہوں۔
تیاری
چوں کہ میں نے بہت دیر سے پلان بنایا تھا تو ایک ریس سی لگ گئی۔ میں نے عالمی یومِ معذوراں کے موقع پر کپڑے، پک اینڈ ڈراپ سمیت ہر چیز سوچی، ہاں اگر نہیں سوچا تو یہ نہیں سوچا کہ بولنا کیا ہے۔ میں نے فیملی گروپ میں اس بارے میں پوچھا تو بھابھی نے کافی نکات بتائے جن میں سے کچھ میں نے ذہن نشین کر لیے۔ مگر پھر بھی میں اسٹیج پر جانے تک متذبذب تھی آیا مجھے بولنا کیا چاہیئے۔
میں نے ایک دن پہلے احتیاطاً آپی سے پوچھ لیا کل ڈرائیور ہو گا؟ انہوں نے اطلاع بہم پہنچائی، ”ڈرائیور آج نہیں آیا، ہو سکتا ہے کل بھی نہ آئے۔“ میں نے فوراً دوسری بہن کو کال ملائی اور ابھی فقط اتنا ہی کہا تھا کہ مجھے کام ہے تو کہنے لگی مجھے بھی آپ سے کام ہے۔ کل صبح ڈرائیور آپ کو یومِ معذوراں کی تقریب میں لے جائے گا اور واپس بھی چھوڑ دے گا۔ اب آپ اپنا کام بتاؤ۔ میں نے کہا یہی کام تھا، اچھا اللہ حافظ۔۔۔
عبدالرحمٰن کی باتیں
رات کو بہن کا پیغام ملا کہ صبح ساڑھے آٹھ سے پہلے مجھے بتا دینا کہیں میں بھول نہ جاؤں۔ میں نے صبح کال کی تو عبدالرحمٰن نے اٹھائی۔
عبدالرحمٰن: آپ بڑی خالہ کی طرف ہو؟
می: جی میں یہیں ہوں۔
عبدالرحمٰن: ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کر رہا ہے۔ گاڑی آ رہی ہے، آ رہی ہے گاڑی۔
می: آپ ماما کو میری کال کا بتا دینا اوکے۔
عبدالرحمٰن: آپ بڑی خالہ کی طرف ہی ہو نا؟ گاڑی آ رہی ہے (پھر وہی گردان)
بچے کا احساس ذمہ داری ملاحظہ فرمائیں۔ اس نے سوچا گاڑی مطلوبہ جگہ پر پہنچنی چاہیئے، نہ کہ کہیں اور۔ اتنے میں ندیم بھائی نے فون لے کر مجھ سے یومِ معذوراں کی تقریب شروع ہونے کا وقت پوچھ کر فون بند کر دیا۔
تقریب
ناشتہ کر کے میں کپڑے استری کر رہی تھی جب ہنی نے کمرے میں جھانکا۔ اس سے پہلے میں اس سے مدعا پوچھتی، وہ واپس پلٹ گیا۔ غالباً وہ استری لینے آیا تھا۔ خیر میں نے کنگھی کی، کپڑے بدلے اور فری سے ادھار لیا ہوا لوشن تھوپنے لگی۔ اتنے میں گاڑی آ گئی۔
میں نے سوچا تھا دیر سے جاؤں گی کیوں کہ تقریبات کون سا وقت پر شروع ہوتی ہیں۔ نو بجے کا وقت تھا تو کون سا نو بجے ہی آغاز ہو جائے گا۔ خیر مجھے جانا ہی پڑا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی اولین مہمان میں ہی تھی۔
میں نے مومنہ کو کال کر کے بولا مجھے لے جاؤ، میرے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ وہ اور انعم فوراً باہر آ گئیں۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا آپ کو کیسے پکڑنا ہے؟ میں نے تسلی دی کہ آپ بس وہیل چیئر کو پکڑ کے رکھنا۔ لیکن پھر بھی انہیں ڈر رہا کہیں میں نیچے نہ گر جاؤں۔ میں منتظمین کی سرگرمیاں دیکھنے میں مشغول ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور انعم (ڈاکٹر انعم نجم) آئی تو میں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ بقیہ وقت گپ شپ میں قدرے سہولت سے کٹ گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر بشریٰ شمس آئیں۔ ان سے بھی گپ شپ ہوئی۔ وہ بار بار کہتی رہیں، ”ہائے فہمیدہ تم کتنی کمزور ہو گئی ہو۔“ اب ان کی محبت پر میں کیا کہتی، سو خاموش رہی۔
جھلکیاں
یومِ معذوراں کی تقریب کا باقاعدہ آغاز پونے گیارہ بجے تلاوتِ کلام پاک اور نعتِ رسول مقبول سے ہوا۔ پہلے ڈاکٹر انعم کو بولنے کے لیے بلایا گیا۔ پھر ایک اینیمیٹڈ مووی دکھائی گئی۔ جس کے مکالمے سن کر میں نے سوچا اس سے اچھا تو میں لکھ سکتی تھی۔ اس کے بعد مجھے بلایا گیا ڈاکٹر فہمیدہ فرید خان کہہ کر۔۔۔ میں خود حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ میری ہم نام ڈاکٹر کون ہے۔ اتنے میں مجھے لینے آئے کہ آپ کا نام غلط بولا گیا ہے لیکن مجھے آخر تک ڈاکٹر فہمیدہ ہی پکارا جاتا رہا، جانے کیوں۔۔۔
پھر پروفیسر طارق محمود بولنے کے لیے آئے۔ انہوں نے بڑی مثبت باتیں کیں اور اسمبلی میں معذور افراد کی نشست کی تجویز پیش کی۔۔۔ (میں خود کافی عرصہ سے کہتی آ رہی ہوں یہ بات۔ آج نہیں کہی کیوں کہ کوئی حکومتی نمائندہ موجود نہ تھا۔) اس کے بعد یاسر جوش آئے اور انہوں پروفیسر طارق کی بات کو آگے بڑھایا کہ اسمبلی میں ایک نہیں، دو نشتیں ہونی چاہئیں۔۔۔ ایک مرد اور ایک خاتون کی۔ پھر خاکہ پیش کیا گیا جو بہت اچھا تھا۔ خاکے کے دوران ہی وزیراعظم آزادکشمیر عبدالقیوم نیازی کی آمد ہوئی، ان کے ہمراہ وزیرِ حکومت بھی تھے۔
ندیم بھائی میرے پاس آئے تو ڈاکٹر بشریٰ نے تعارف کروایا، ”فہمیدہ یہ ہمارے ڈی سی صاحب ہیں۔“ مجھے ہنسی آ گئی، ”ہائے میں تو انہیں جانتی ہی نہیں۔“ پھر انہیں بتایا کہ یہ میرے بہنوئی ہیں۔ وہ حیرت زدہ ہوئیں اور پھر کہنے لگیں، ”اچھا تبھی تم سے ملنے آئے تھے۔“ میں مسکرا دی تھی۔
جلدی کام خرابی کا
جمعہ کی نماز کا وقت تنگ ہو رہا تھا اس لیے ڈاکٹر بشریٰ شمس، پاکستان سے آئے ایتھلیٹ علی مصطفٰی، دیوان علی خان چغتائی (وزیرِ تعلیم) اور وزیراعظم نے جلدی جلدی تقاریر بھگتائیں۔ وزیراعظم نے کیک کاٹا اور ڈاکٹر انعم کو شیلڈ پیش کر کے چلتے بنے۔ اس کے بعد حمزہ کاٹل نے انٹرویو کی استدعا کی۔ اتنے میں ڈرائیور کے پہنچنے کی اطلاع ملی۔ میں گاڑی میں بیٹھ چکی تھی، تب عبدالرزاق اور مومنہ اپنی چائے لیے چلے آئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ نے کچھ لیا۔ میں نے ترنت سچ اگلا، ”مجھے کسی نے پوچھا ہی نہیں۔“ مومنہ اور عبدالرزاق ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ خیر اب عبدالرزاق میری دعوت کرے گا آہو۔
اہم نکات
تقریب کا آغاز جتنا شاندار تھا، اختتام اسی قدر پھسپھسا۔۔۔۔
وزیراعظم نے کہا وہ اسمبلی سے سیدھے یہیں آئے ہیں، اس لیے انہیں تقریب کی نوعیت کا علم نہیں۔ ایک ریاست کے وزیراعظم کو کم از کم اس کا پی اے بتا سکتا تھا کہ آج عالمی یومِ معذوراں ہے۔
وزیراعظم سے کیک کٹوانے کے دوران اعلان ہوا فلاں فلاں بندے اسٹیج پر آ جائیں۔ جن نمانوں کا یومِ معذوراں تھا، اور جن کے لیے یہ محفل سجی تھی، ان کو پوچھا ہی نہیں گیا۔ میں جل بھن کر بڑبڑائی، ”سارے معذور مل کر کیک کاٹ رہے ہیں۔“ اس پر ڈاکٹر انعم کی ہنسی بے ساختہ تھی۔ عالمی یوم معذرواں پر یہ سلوک تھا تو باقی دنوں کا حال آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
پاکستان سے آئے اتھلیٹ علی مصطفٰی کو بھی زیادہ بولنے کا موقع نہیں دیا گیا کہ وزیراعظم کو دیر ہو رہی تھی۔
وزیراعظم عالمی یومِ معذرواں کے موقع پر بھی اپنے پروٹوکول اور تام جھام سے باہر نہ نکل سکے۔ وہ معذور افراد کے ساتھ تصویر تک بنوائے بغیر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ واپس چل دیئے۔ او پئی جے تبدیلی۔۔۔
شیلڈز اور اسناد دینے کا کوئی منظم انتظام نہیں تھا۔ ڈاکٹر انعم کو اسٹیج سے جھک کر شیلڈ پکڑائی گئی۔ میرے لیے ڈاکٹر بشریٰ شمس کو نیچے آنا پڑا۔
ٹیپ کا بند
ہر ایک کی ٹیپ کا بند تھا، ”یہ لوگ معذور نہیں، ہم معذور ہیں۔ یہ لوگ معذور نہیں بلکہ اسپیشل ہیں۔“ لیکن رویہ اس کے منافی تھا۔
تقریب کے اختتام پر حمزہ کاٹل نے مجھ سے تقریب کے متعلق پوچھا تو میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بے لاگ رائے دی۔
۔ خصوصی افراد کہنے سے شاید ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ انہیں خصوصی طور پر کونے سے لگا دیا جائے۔ تین دسمبر یعنی عالمی یومِ معذرواں پر جھاڑ پونچھ کے دنیا کے سامنے اپنے مہذب ہونے کا ثبوت پیش کیا جائے۔
میرا سب نے فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔ آپ کے شکریہ کا شکریہ۔
مثبت نکات
یہ آزادکشمیر کی تاریخ کی پہلی کانفرنس تھی جس پر نوبل آرگنائزیشن مبارکباد کی مستحق ہے۔
انعم راٹھور اور مومنہ وحید کے لیے محبت۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ عالمی یومِ معذرواں کے موقع پر زندگی کے ان گنت تجربات میں مزید اضافہ ہوا بشکریہ نوبل آرگنائزیشن۔
تحریر: فہمیدہ فرید خان
پچھلی تحریر بھی پڑھیئے مصالحہ دار ہنگامی نگارشات