Home » Book & Literature Review » میر معلوم ہے ملازم تھا | محمد اقبال دیوان | اردو تبصرہ

میر معلوم ہے ملازم تھا | محمد اقبال دیوان | اردو تبصرہ

میر معلوم ہے ملازم تھا

تبصرۂ کتب

میر معلوم ہے ملازم تھا از محمد اقبال دیوان

مریم مجید ڈار کا تجزیہ

Follow
User Rating: 3.72 ( 1 votes)

میر معلوم ہے ملازم تھا

مصنف: محمد اقبال دیوان

تبصرہ نگار: مریم مجید ڈار

مجھ سے پوچھیں تو بہترین، پر لطف اور اثر انگیز نثر وہی ہے کہ سطر میں نظم کا مزہ آ جائے۔ فقرہ ایسا چٹکیلا، اچھوتا اور رسیلا ہو کہ قاری جانتے بوجھتے بھی اس میں بیان کی گئی سچائی کی کڑواہٹ کو نگلنا چاہے۔ فی زمانہ ایسے لکھاری کم یاب ہیں۔۔۔ اور جو ہیں ان میں سے بیشتر اپنی تحریر کو اپنی ذات کے اثر سے بچا نہیں سکتے۔ ایک چھاپ سی مسلسل لکھائی سے جھانکتی رہتی ہے۔ ایسے میں کوئی مصنف اپنی ذات سے پرے ہٹ کر مشاہدات و تجربات کو من بھاونا رنگ دے۔۔۔ اور بہ طور تیسرے فریق ادب تخلیق کرے تو اسے غنیمت جانیے۔

.


اقبال دیوان صاحب ایسی نثر کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ جو لکھتے ہیں وہ سچ ہونے کے باوجود ایسے بیان کرتے ہیں جیسے آپ کو الائچی سے مہکتے قوام والے پان کو آک کے زہریلے پتوں میں لپیٹ کر کھانے کی لت لگ جائے۔ کسیلا، تلخ مگر منہ کو لگ جانے والا مزہ۔
میر معلوم ہے ملازم تھا دیوان صاحب کے چار افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ ہر افسانہ انسانی نفسیات، ترجیحات، عورت کی ناقابل یقین فیصلہ سازی اور اس کے دل و دماغ کی الگ الگ کیفیات کا شان دار عکاس ہے۔
پہلے افسانے “عجلت پسند ” کی سبین عرف بینو ایک عام سے گھر کی وہ معاملہ ساز عورت ہے جس نے نامرد شوہر، ٹیپو جیسے بل فائٹر نما عاشق اور مستقل سہارا دینے والے ٹوانہ جی کی تکون کے ہر زاویے کو متوازن رکھا۔ اس کشمکش میں بینو وہ واحد ہستی رہی جسے کسی جانب سے بھی نقصان اٹھانا نہیں پڑا۔

.


عموماً طوائف/رنڈی/مجرے والی کا تاثر ایک ایسی عورت کا ہوتا ہے جو ناچنا گانا جانتی ہے۔۔۔ مردوں کے دل بہلاتی ہے یا جسم فروشی کرتی ہے۔۔۔ مگر گھر واپسی کی مینا ایسی طوائف ہے جس نے شہاب نامہ بائیس مرتبہ پڑھ رکھا ہے۔ وہ اپنے خریدار سے زیور کپڑے کے بجائے کتابوں کی فرمائش کرتی ہے۔
دوسری شادی کا پسِ منظر تقسیمِ برصغیر کے فوراً بعد برپا ہونے والے فسادات اور خوں ریزی کا ہے۔ اس لوٹ مار، دنگے فساد میں سنجیدہ خاتون اور صداقت قریشی کی پنپتی محبت ہے۔۔۔ جس میں سنجو کا سرخ دوپٹہ خطرے کا پھریرا بن کر لہراتا ہے۔ اور بنیے کیشو رام کی موت پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
میر معلوم ہے ملازم تھا، میر ملازم کی داستان ہے۔ اسے پہلے پہل صرف اپنے موبائل فون اور بتیوں والے چارجر سے محبت تھی۔ مگر پھر اسے دو شوہروں کی موت کی ذمہ دار سمجھی جانے والی حسین و جمیل سلطانہ نظر آ گئی۔ میر ملازم کی محبت سلطانہ کو سہاگ کی سیج پر تو لے آئی۔۔۔ مگر اس کی قیمت میر کو کیا ادا کرنا پڑی، یہ جاننے کے لیے کتاب پڑھنا پڑے گی۔

اگر حبس بھری دوپہروں میں خس کے عطر سے مہکتی نثر پڑھنی ہے تو اقبال دیوان کو پڑھیے۔ آپ مایوس نہیں ہوں گے۔

آبان احمد کا تبصرہ بھی پڑھیں مہر از ماریہ جمیل

About Marium Majeed Dar

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *