ناول: چونچ مارتے کوے
مصنفہ: شمائلہ دلعباد
تبصرہ: فہمیدہ فرید خان
ایک دو روز قبل شمائلہ جی نے بولا کہ جس کے پاس بھی کرن (رسالہ) آئے، وہ ان کے ناول ”چونچ مارتے کوے“ کی تصویریں بھیج دے۔ میرے لیے یہ قابل مسرت خبر تھی۔ میں بغیر پڑھے بتا سکتی تھی کہ یہ تحریر اچھی ہو گی۔ شمائلہ جی کی اب تک تخلیقات میں بلا کی روانی ہے۔ جوں ہی یہ ناول موصول ہوا، میں نے فوراً پڑھنا شروع کر دیا اور پھر کہیں نہ رکی۔۔۔
یہ کہانی رتو کی تھی، جو بچپن میں زیادتی کا شکار ہوئی۔ یہ عطرت بانو کی زندگی کا المیہ تھا اور فضل کے حسد کی داستان تھی۔۔۔ رتو کی ماں سکینہ عرف چھینو کا نوحہ تھا۔۔۔ اس میں احمد چوہدری کی ذہنی کشمکش تھی اور ثروت آراء کا اخلاص تھا۔۔۔ تائی کی خود غرضی کا استعارہ اور معاشرے کے شرمناک پہلوؤں پر طمانچہ تھا۔
چونچ مارتے کوے
ایسی دل گداز و دل فگار کہانی تھی ”چونچ مارتے کوے“ اور اس پر تحریر کا بے ساختہ پن واہ۔۔۔ کہیں بھی میری توجہ نہیں بھٹکی، کہیں بھی میرا ارتکاز نہیں ٹوٹا۔ کسی جگہ بھی ”چونچ مارتے کوے“ بے ربطی کا شکار نہیں ہوئی۔۔۔
لیکن رتو کا مجرم فضل نکلا، یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ہمارے لیے۔ ہم اپنے بچوں کو کس کس سے بچائیں؟ رشتوں کے ناگ جانے ان جانے میں ڈس جاتے ہیں۔۔۔ ہم کس پر بھروسہ کریں، کس پہ نہ کریں۔ قریبی رشتے بھی اگر قابلِ بھروسہ نہ ہوں تو زندگی جہنم سے بھی بد تر ہو جاتی ہے۔ ”چونچ مارتے کوے“ کا اختتامیہ مثبت پیش رفت کی وجہ سے اچھا لگا۔
چونچ مارتے کوے کا نام جتنا منفرد تھا، کہانی اس سے بھی زبردست تھی۔ شمائلہ جی اپنے قلمی سفر کو جاری رکھیے گا، اسی روانی اور جولانی سے۔۔۔
اپریل ۱۱, ۲۰۱۹ء